عزیز میرانی


دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔
میں سروس کے سلسلے میں مختلف اوقات میں 7 سال تک سندھ میں تعینات رہا ہوں۔ اور اس وجہ سے آج کے بہت سے نامی سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے سینئر عہدیداروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور زیادہ تر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس دوران بہت سے واقعات اور سانحات کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔ لیکن ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔
اس وقت میں ملک کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے جمعہ کے روز کراچی میں پانی دستیابی کے بحران پر دئیے گئے بیان پر ورطہ حیرت میں مبتلا ہوں۔
فرمایا کہ وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی میں پانی ٹینکرز سے ڈلواتا ہوں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے اس مضحکہ خیز بیان پر مجھے ہنسی آنی چاہیے تھی لیکن میں دکھ کا شکار ہو گیا ہوں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ حالات کی ستم ظریفی نے ہمارے معاشرے کو تنزلی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اس قبیل کے لوگوں کو ہم نے محض وراثت کے بل بوتے پر اپنا رہنما اور نجات دہندہ تسلیم کر لیا ہے۔ اور شائید آئیندہ بھی اسی طرح کے لوگ ہم پر مسلط رہیں گے۔
پوری دنیا میں اس طرح کا بے رحمانہ مذاق صرف ہماری قوم کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہماری قوت برداشت فقیدالمثال ہے۔
جو لوگ کئی عشروں سے سندھ پر حکمران ہیں، ٹینکر مافیا کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں بلکہ اس غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی کاروبار میں برابر کےحصہ دار ہیں۔ مقام حیرت اور افسوس ہے کہ وہ  شکایت آخر کس سے کر رہے ہیں؟
قارئین بھول گئے ہونگے اور ان کو یہ پڑھ کر یقینا" حیرت ہوگی کہ سندھ میں کئی ماہ گزرنے کے باوجود آج بھی بارشوں اور سیلاب زدگان کی ایک بڑی تعداد کھلے آسماں تلے بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یخ بستہ سردیاں گزر گئیں۔ آگ اگلتا سورج قیامت خیز گرمی کے جلو میں ان کے سروں پر آ پہنچا۔ لیکن یہ متاثرین آج بھی بے یار و مدد گار ہیں۔  آج تک ان کی بحالی نہی ہو سکی۔
پورے ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے سندھ کے رہنماوں کو ان مشکلات اور مصائیب میں گھرے لوگوں کو بحال کرنے کی نہ کوئی جلدی ہے، نہ خواہش اور نہ کوئی منصوبہ بندی۔
میں یہ بات اتنے وثوق کے ساتھ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میرے چند دوست صرف 2 ہفتے پہلے سندھ جاکر سیلاب متاثرین میں راشن تقسیم کر کے آئے ہیں اور ان کی حالت زار پر بہت رنجیدہ ہیں۔
آج وطن عزیز کی جو حالت ہے اور عوام الناس جن مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں، ان کے ذمہ دار یہی ہمارے رہبر ہیں جنہوں نےقافلے کو  بے سمت اور بے نشان ومنزل بنا دیا ہے۔
آفریں ہے ان لوگوں پر  جنہوں نے 'رضاکارانہ' طور پر ایسے لیڈروں کو نہ صرف اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے بلکہ اپنی اپنی ہسند کے لیڈروں کے گن گانے میں بھی اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنی دوستیاں اور سالہا سال کے قائم شدہ تعلقات بھی قربان کرنے سے دریخ نہی کرتے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے  کہ یہ ہمارے اجتمائی شعور کی نہ صرف توہین ہے بلکہ موت کے مترادف ہے۔ بلا تخصیص تمام سیاسی لیڈران کا اپنے ذاتی مفادات کی خاطر عوامی مسائل کو سیاسی رنگ دینا قابل فہم ہے لیکن جب عام لوگوں کو اپنے مفاد کی قیمت پر ایسے لیڈروں کا دفاع کرنے کے لئے ہمہ تن کمر بستہ دیکھتا ہوں تو احساس زیاں بڑھ جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اپنے حقوق کا ادراک کریں، ہر معاملے کو سیاسی عینک سے دیکھنے کی روش ترک کر دیں اور سیاسی راہنماوں کے ذاتی مفادات کے حصول میں غیر شعوری طور پر آلہ کار نہ بنیں۔ ورنہ یہ رنگباز بازیگر ہمیں  ہمیشہ کھلا دھوکہ دیتے رہیں گے۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار