سوال نمبر۱:آپ کا تعارف۔
میرا نام تسنیم سرور ہے میرا تعلق لاہور سے ہے جبکہ شادی کے بعد میں رحیم یارخان آئی۔
سوال نمبر۲:اپنے خاندانی پس منظر سے کچھ آگاہی دیجئے۔
ہم ماشاء اللہ دس بہن بھائی ہیں۔پانچ بہنیں پانچ بھائی،بہن بھائیوں میں میرا نمبر چوتھا ہے والد ہمارے اکاونٹس کے محکمے میں تھے جبکہ امی جان ہاوس و ائف ہیں۔ایک بھائی رحیم یار خان کی تحصیل صادق آبادمیں مقیم ہے ان کا اپنا آپٹیکل سنٹر ہے،ایک بھائی لاہور میں سینئر سرجن ہیں،تین بھائیوں کا اپنا پریس کا کام ہے بہن بھائی سب شادی شدہ ہیں۔
سوال نمبر۳:اپنے تعلیمی ریکارڈ اور سرگرمیوں کے بارے میں بتائیں۔
ابھی میرا ایف ایس سی کا رزلٹ آیا ہی تھا کہ شادی ہوئی۔پڑھنے کا بہت شوق تھا لہذاشادی کے بعد علامہ اقبال یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا اب زیادہ تر وقت تحریک کے کاموں میں گزرتاہے۔
سوال نمبر۴:آپ کے مشاغل اور پسندیدہ ادبی شخصیات کون سی ہیں؟
میں چونکہ جماعت اسلامی کی رکن اور ناظمہ صوبہ جنوبی پنجاب ہوں لہذا میرا اہم مشغلہ اپنی اسی ذمے داری کو امانت داری سے ادا کرنا ہے۔میرا زیادہ تر وقت تحریک کے کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ادبی شخصیات میں اشفاق احمد،واصف علی واصف،قدسیہ بانواور قدرت اللہ شہاب شامل ہیں ویسے زیادہ تر کتابیں مولانا مودودی ؒ کی پڑھتی ہوں۔
سوال نمبر۵:بچوں کی تعداد،ان کی عمریں اور تعلیم؟
بچے دو ہیں،ایک بیٹاایک بیٹی۔بیٹا33سال کا ہے اور بیٹی 26سال کی ہے دونوں شادی شدہ ہیں۔بیٹا ڈاکٹر ہے جبکہ بیٹی نےMBIT کیا ہے۔
سوال نمبر۶:سیاست میں قدم کب اور کیسے رکھا؟
جماعت اسلامی ایک مذہبی و سیاسی جماعت ہے جس کا نصب العین ہی رب کی دھرتی پر رب کا نظام قائم کرنا ہے چنانچہ جماعت میں آنے کے بعد سیاست میں باقاعدہ حصہ لیا۔اب بھی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے MNAکی سیٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
سوال نمبر۷:دور حاضر میں سیاسی و سماجی خدمات انجام دینے والی شخصیات میں سے آپ کی پسندیدہ شخصیات کون سی ہیں؟
مردوں میں سراج الحق،سیدوسیم اختر مرحوم،سینیٹر مشتاق احمد خان اور حافظ نعیم الرحمن صاحب ہیں جبکہ خواتین میں ڈاکٹر سمیح راحیل قاضی اور ڈاکٹر کوثر فردوس صاحبہ ہیں۔
سوال نمبر۸:جماعت اسلامی سے تعلق کتنا پراناہے؟
جماعت اسلامی سے تعلق تقریبا بیس سال پرانا ہے۔
سوال نمبر۹:جماعت اسلامی میں آپ کی ذمے داریاں کب کب اور کیا رہیں؟
2004میں میری رکنیت منظور ہوئی،2006سے2010تک میں یوسی کی ناظمہ رہی۔2011سے 2014تک شہر کی ذمہ داری میرے پاس رہی۔پھر دوسال رحیم یار خان ضلع کی ذمہ داری رہی۔ایک سال میں صوبہ پنجاب کی نائب ناظمہ رہی۔پھر جب پنجاب کو تین حصوں شمالی،جنوبی اور وسطی میں تقسیم کیا گیا تو مجھے جنوبی پنجاب کی ناظمہ مقرر کردیاگیا جس کی ذمہ داری پرمیں تاحال مامور ہوں۔
سوال نمبر۰۱:خواتین کے مسائل کے حل کے لئے ماضی میں جماعت اسلامی کا کیا کردار رہاہے؟
جماعت اسلامی ویمن ونگ نے شعبہ  women and family commission قائم کیا۔جس کے تحت خواتین کو معاشی و معاشرتی طور پر مضبوط بنانے کیلئے مختلف منصوبوں پر کام کیا جاتا ہے۔اس کے تحت شادی شدہ خواتین کو قانونی امداد بھی دی جاتی ہے۔ فلاح خاندان ٹرسٹ کے تحت خواتین کی ہر طرح کی گھریلو امداد اور شادی شدہ زندگی کے مسائل کے حل کے لئے کونسلنگ کی جاتی ہے۔الخدمت ویمن کے تحت جہیز باکس،آسان نکاح،بیواوں اور ضرورت مند خواتین کو ماہانہ وظایف بھی دیئے جاتے ہیں،ہمارے قرآن سینٹرز میں سلائی سنٹرز بھی خواتین کی مدد کیلئے کھولے جاتے ہیں۔
سوال نمبر۱۱:تعلیمی میدان کے اندر جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی کیا کارکردگی رہی ہے؟کیا مردو زن کو یکساں تعلیم دینی چاہیئے؟
جماعت اسلامی خواتین کی تعلیم کیلئے ہمیشہ سے کوشاں رہی ہے ہماری ممبر عائشہ سید کی کوششوں سے سوات میں خواتین یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا،کراچی میں نعمت اللہ خان صاحب نے خواتین کالجز قائم کئے۔پچھلے سال نعیم الرحمن صاحب نے کراچی میں بچیوں کیلئے "بنوقابل" کے نام سےIT کے میدان میں نہ صرف APTITUDE TEST لئے بلکہ انہیں آن لائن جابز بھی دیں۔جمعیت طالبات جوکہ جماعت کی سسٹر تنظیم ہے  پہلے دن سے بچیوں کے کالجز،یونیورسٹیز میں داخلوں سے لے کر ہر طرح کی تعلیمی مدد فراہم کرتی رہی ہے اس کے علاوہ دور دراز کے علاقوں میں بیٹھک اسکول کے ذریعے گاوں اور دیہات کی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جارہا ہے۔چونکہ مرد وزن معاشرے کا یکساں حصہ ہیں لہذا دونوں کیلئے تعلیم کے مواقع بھی یکساں ہونے چاہئیں۔لیکن خواتین کی ضرورت اور میلان کے مطابق کچھ شعبے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں جیسے طب ہے،درس و تدریس ہے۔اور امورخانہ داری کیلئے اسکولوں میں پہلے ہوم اکنامکس کا مضمون ہوتا تھا اس تعلیم کیلئے باقاعدہ کالجز علیحدہ سے تھے یونیورسٹیز میں شعبہ جات تھے لیکن یورپ سے آئی صنعتی ترقی نے عورت کو بالکل مرد جیساسمجھ لیا اور عورتوں نے بھی ہر اس شعبے میں لینا شروع کردیا جو خالصتا مردانہ تھے ہم مرد وزن کی تعلیم کے پورے عزم سے حامی ہیں لیکن جن شعبوں میں عورت کی نسوانیت اور عفت و حیاء متاثر ہو وہاں پر اعترازکے قائل ہیں۔
سوال نمبر۲۱:پاکستانی عورت کے صحت کے مسائل کے حل کیلئے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ویمن اینڈ فیملی کمیشن عورتوں کی فلاح وبہبود کیلئے قائم کیا گیا ادارہ ہے اسی ادارے کے تحت صحت اور زچہ و بچہ کی صحت کے پراجیکٹس ہیں۔اسی طرح پیما(Pakistan Islamic Medical Association) بھی ہماری سسٹر تنظیم ہے۔ جس میں خواتین کی جسمانی صحت،ان کی نفسیاتی اور ذہنی صحت کے لئے مفت مشورے،ٹیسٹ اور علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔پاکستان اور پاکستان سے باہر جب کبھی ضرورت پڑتی ہے تو پیما کی ڈاکٹرزاپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔اس کے لئے ہماری ملک گیر ایمبولینس سروس،ڈسپنسریاں اور ہاسپٹلز قائم ہیں۔جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی ہر طرح کی طبی امداد دی جاتی ہے۔
سوال نمبر۳۱:ہمارے معاشرے میں عورت کا باپ اور شوہر کی وراثت میں اپنا حصہ طلب کرنا جرم سمجھا جاتا ہے اس حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے لیکن عملدرآمد کو کیسے ممکن بنایا جائے ا؟
خواتین کو شریعت کے عطاکردہ وراثت اور ملکیت کے حقوق کی فراہمی جماعت اسلامی یقینی بنانے کی ہمیشہ کوشش کرتی ر ہی ہے اور کرتی رہے گی۔جماعت نے اپنے منشور میں اس چیز کو شامل کیا ہے کہ وراثت میں حصہ نہ دینے والے امیدواران کو انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔
سوال نمبر۴۱:پاکستانی ماحول اور سیاست کے میدان میں کام کرنے والی خواتین کو کن حالات کاسامنا رہتا ہے اور جماعت اسلامی بحیثیت جماعت اس سلسلے میں کس طرح آپ کی مدد کرتی ہے؟
ہمیں آزادی،آزادی رائے اور آزادانہ رائے دہی کے بھرپور مواقع اور اس کیلئے محفوظ ماحول مہیا کرتی ہے اور سیاسی نمائندگی کے عمل کو بہتر بناتی ہے۔
سوال نمبر۵۱:آپ کے خیال میں پاکستانی عورت کے بڑے مسائل کیا ہیں؟
پاکستانی عورت کے بڑھتے مسائل تعلیم،صحت،قانونی حقوق نہ ملنا،معاشی حقوق جو شریعت نے ان کو عطا کئے ہیں ان کا نہ ملنااور سیاسی حقوق کا نہ ملناآج بھی پاکستانی عورت کے بڑے مسائل ہیں۔
سوال نمبر۶۱:ملازمت پیشہ خواتین کو سہولیات کی فراہمی کے بارے میں جماعت اسلامی کیا کرے گی؟
ملازمت پیشہ خواتین کیلئے لچکدار اور اختیاری اوقات کار کا نظام بنایا جائے گا۔تاکہ خاندان کے بنیادی ادارے کے تحفظ کے ساتھ خواتین کے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوسکے۔جائے ملازمت پر ان کے تحفظ کا مکمل بندوبست کیا جائے گا۔ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔بچلرز کیلئے ہاسٹلز قائم کئے جائیں گے
سوال نمبر۷۱:قوانین کی موجودگی کے باوجود خواتین اور بچیوں پر تشدداور زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جماعت اسلامی اس پر کیسے عملدرآمد کرواے گی؟
ان کیلئے پولیس فوری رسپانس یونٹ قائم کئے جائیں گے۔خواتین اور بچیوں کو فوری انصاف کی فراہمی کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
سوال نمبر۸۱:دیہات میں آج بھی لڑکی کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی اس کیلئے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟
دیہاتوں میں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے سکول قائم کئے جائیں گے۔میٹرک تک تعلیم لازمی اور مفت کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔طالبات کو اعلی تعلیم کے حصول کیلئے خصوصی سکالرشپ  دیئے جائیں گے۔کالجز میں بہت کم فیس لی جائے گی۔
سوال نمبر۹۱:آپ کے کیا جذبات و احساسات تھے جب آپ نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا؟
مثبت جذبہ،شوق اور ولولہ تھا کہ سیاست کے میدان میں آکر ہی میں اسلامی شریعت کا نفاذ کرسکوں گی جوکہ ہماری جماعت کانصب العین  مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہے۔جومشکلات مجھے معاشرے میں کام کرنے میں آتی ہیں ان کا حل یہی تھا کہ مسلمان حکومت آجائے، قانون کا نفاذ ہوتا تو یہ مشکلات نہ ہوتیں،لہذا اگر مجھے یہ موقع مل جائے تو میں آنے والی نسل کیلئے حالات سازگار بناؤں گی۔ان شاء اللہ
سوال نمبر۰۲:آپ چونکہ خود ایک خاتون ہیں لہذا آپ بتائیں کہ معاشرے کی اصلاح و تعمیر میں خواتین کیا کردار اداکرسکتی ہیں؟
خواتین پاکستان کی آبادی کانصف حصہ ہیں تو معاشرے میں تبدیلی،خوشحالی،ترقی جس طرح مرد کوشش کرکے لاسکتے ہیں۔اسی طرح معاشرے کی اصلاح و ترقی میں خواتین بھی بھرپورکردار اداکرسکتی ہیں اور ہر دور میں کرتی رہی ہیں۔حضرت خنساء ہوں یا حضرت عائشہ ہوں،فاطمہ جناح ہوں یا بلقیس ایدھی،جماعت اسلامی خواتین کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
سوال نمبر۱۲:ہم اپنی اگلی نسلوں میں نظریہ پاکستان کو کس طرح بہترین انداز میں منتقل کرسکتے ہیں؟
اپنے نصاب اور نظام تعلیم کو اسلامی نظریہ کے مطابق بناکر ہم اپنی اگلی نسلوں میں نظریہ پاکستان کو بہترین انداز میں منتقل کرسکتے ہیں۔نصاب صرف رٹوائیں نہیں بلکہ پریکٹیکل سے تعلیم دیں تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔
سوال نمبر۲۲:کیا پاکستان سے محبت اور اسلام سے محبت دو علیحدہ جذبات ہیں؟
نہیں پاکستان اور اسلام سے محبت دو علیحدہ جذبات نہیں ہیں۔پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہے۔پاکستان اسی کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔اور کلمہ طیبہ ہی اسلام کی بنیادہے جس طرح اسلام سے محبت ہماری ر گ و پے میں ھے اسی طرح ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
سوال نمبر۳۲:کیا ہم نظریہ پاکستان کو نظرانداز کرکے بھی ترقی کی منازل طے کرسکتے ہیں؟
نہیں ہرگز نہیں،نظریہ پاکستان تو بنیاد ہے اس کو لے کر ہی ہم پاکستان کو ترقی کی اعلی منازل پر لے جاسکتے ہیں۔اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔نظریہ پاکستان اس وطن کی اساس اور اس کے حصول کا مقصد تھا۔یہ وطن ہم نے رہائش،تعلیم اور کلچر کے حصول کیلئے نہیں بلکہ اسلام کے نفاذ کے تحت ہر شعبہ زندگی کو اسی کے مطابق ڈھالنے کیلئے حاصل کیاتھا۔نظریہ پاکستان دراصل mind set ہے جو زندگی کے ہر شعبے کو چلانے کے پیچھے ایک قوت کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے بغیر ترقی بے سمت و بے راہ ہوگی بلکہ ہمارے اصول و مقاصد کے خلاف کام کرے گی۔
سوال نمبر۴۲:نوجوان پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟
نوجوان پاکستان کے معمار اور مستقبل کی امید ہیں نوجوان کا پہلا میدان تو تعلیم و ہنر کا حصول ہے اس کے بعد ملک کے وسائل و مسائل کا شعور ہے اور تیسری اہم چیز سمت کا یقین ہے۔بدقسمتی سے ہمارا نوجوان مایوس ہے اس لئے وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کررہا جو اس سے متوقع ہے لہذا نوجوانوں سے کام لینا ہے توان کی رہنمائی کی جاے۔انہیں حوصلہ اور امید دلائی جائے ان کے لئے ترقی کے مواقع فراہم کئے جائیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے جس کے نتیجے میں معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور نوجوان اپنی صلاحیتیں یا توغلط سمت میں لگا لیتے ہیں یا وطن چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔جو قابل نوجوان بچتا ہے وہ معاش کے حصول کیلئے سرگرداں رہتا ہے۔لہذا نوجوان کو کارآمد بنانے کیلئے امید دلائی جائے،رہنمائی دی جائے حوصلہ افزائی کی جائے،کیونکہ وہ ملکی سیاسی صورتحال سے بہت مایوس ہوچکے ہیں۔
سوال نمبر۵۲:موجودہ حالات میں یوتھ کے لئے بنیادی چیلنجز کیا ہیں؟
یوتھ کے چیلنجز تو بہت سارے ہیں لیکن جوسب سے بڑا چیلنج ہے وہ مقصدزندگی سے لاعلمی ہے غربت،طبقاتی فرق،مواقع کا فقدان، ڈرگز، کرپشن،مہنگائی،پدرآزادی یہ وہ سب چیلنجز ہیں جو منہ کھولے ہمارے نوجوان کوہڑپ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ان سب سے نبرد آزما ہونے کے لئے شعور زندگی،مقصد زندگی،بلند حوصلگی،اور صحبت صالح وہ روشنیاں ہیں جو ہر چیلنج سے لڑجانے کا حوصلہ عطاکرتی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اور دیگر ادارے یہ روشنی پھیلانے میں ناکام ہیں ہمارا معاشرہ ایک بے ہنگم معاشرہ ہے جہاں سے اصلاح کی بجائے ابتلاع ہی ملتی ہے ایسے میں گھر ہی وہ واحد ادارہ ہے وہ قلعہ ہے جہاں سے یہ روشنیاں پھوٹ سکتی ہیں لیکن وہ خال خال ہی ہیں۔
بقول اقبال دل سے یہی آہ نکلتی ہے
نوجوانوں کو میری آہ سحردے ٰٓ
ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
سوال نمبر۶۲:ملک کی مایوس کن صورتحال میں قوم خصوصاخواتین کیلئے آپ کا امید بھرا پیغام کیا ہے؟
خواتین آبادی کا نصف ہیں،تصویر کائنات کا رنگ ہیں۔ہماری جماعت کے منشور میں ان کی اخلاقی،ذہنی اور معاشی ترقی کیلئے پروگرام موجود ہیں میرا خواتین کیلئے حوصلہ افزا پیغام نہیں مثالیں ہیں۔صحابیات کی مثالیں ہیں،جدوجہد پاکستان کی قائدین محترمہ فاطمہ جناح،بی اماں اور خودہماری جماعت میں سمیحہ راحیل قاضی،ڈاکٹر کوثرفردوس،ڈاکٹرحمیرہ طارق،ڈاکٹر رخسانہ جبیں اور بہت ساری کارکنان جو گھر،ملازمت اور جماعتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی اوراسلامی شعورکی بیداری کیلئے وہ روشن مینار ہیں۔جن کودنیامانتی اور جانتی ہے پاکستان کے اندر اورباہر دنیا میں جتنی خواتین کی بامقصد تحاریک ہیں وہ ICCNAہو،قلنامریم ہو،ترکی و ملائیشیاکی تنظیمیں ہوں وہاں جماعت اسلامی کی باوقارخواتین سرگرم عمل ہیں۔
میراحوصلہ افزا پیغام ہے کہ آئیں اور جماعت اسلامی کا دست و بازو بنیں اور معاشرے میں عورت کی ترقی کے حصہ دار بنیں۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار