ایشیا اردو

تحریر ۔۔رقیہ گل
دسمبر کی یخ بستہ دھوپ ہمیں موت کی تلخی دے گئی ۔آج 16 دسمبر کا دن تاریخ انسانی کا دوسرا بڑا بچوں کے قتل کا سفاک واقعہ پشاور کے ایک اسکول میں لکھا گیا ۔یعنی یہ بھی فرعون کی نسل کے لوگ تھے۔
کافر ہے توشمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑ تا سپاہی
آرمی پبلک سکول سانحہ کو آٹھ برس بیت چکے ہیں، لیکن  قوم کے دل پر کیے گئے زخم آج بھی
پہلے دن کی طرح تازہ ہیں۔ دسمبر کا مہینہ ہم پر ہمیشہ بہت بھاری رہا ہے ۔اسی مہینے دشمنوں نے پاکستان کو دولخت کیا گیا تھا اسی مہینے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہادت ہوئی یعنی زندگی کی نوید دینے والی ساعیتں اسی ماہ میں قتل کی گئیں۔ 16 دسمبر کو موسموں کو روشنی اور خوشبو دینے والی رت گلش گلابوں کی سرخ پتوں سے لہو کی بوندیں ٹپکیں ۔وہ جہاں ہنگامہ بہاراں برپا ہونے والاتھا وہاں نوحہ غم گونج اٹھا ۔  آنسوؤں کے میلے لگے آہوں کے آتش فشانوں کے دہانے کھل گئے ۔گلی گلی میں درد کی انجمن آباد ہے برباد دلوں کے شہروں سے بین کرنے کی آواز یں آئیں ۔قریہ دل میں شور برپا ہوا ۔۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ظلم کا بھونچال آیا زمین میں ڈراڑیں پڑیں ۔سڑکوں سے درد کا دھواں اٹھا ۔علم وحکمت کے دروازوں پر تالے لگا دیتے گئے ہر طرف درد پھیلا سوگ کھل اٹھے آنسو جاری ہوئے آہیں نکلیں بین ہوئے کرب بزم آباد ہوئی زندگی کی گہما گہمی موت کی ویرانیوں میں کھو گئی ۔روشنیوں کی اس زنجیر کو اڑایا گیا جسمیں حلقہ در حلقہ ہم سب جڑے ہوئے ہیں ۔

یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئ روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے
کئ چراغ بجھا دیئے گئے ۔نور کی تنویر اندھیروںمیں اتاردی گئی داغ فراق محبت شب کو چلی ہوئی ۔آخری شمع بھی خاموش ہوگئی وہ جو کہہ گیاکہ
 
شہیدوں کا لہو، وہ نور ہے جس کی تجلی سے
یقین افراد کے، قوموں کے مستقبل سنورتے ہیں

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی اس سے پوچھے ابھی اور کتنی قتل گاہیں آباد ہونی ہیں دن کے چراغوں کا کتنا خون چاہئے۔ابھی کتنی طویل ہے وہ دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی دن ابھی ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔قربان گاہ کی پیاس بجھتی ہی نہیں  نا جانے میری بستی سے کون سی خطا ہوئی ہے۔ظلم کی اندھی بہری رات نےاسکی ایک ایک گلی ایک چوک کو موڑ کو اپنے پنجون میں جکڑ رکھا ہے ۔کہ رہائی کی کوئی صورت ہی دکھائی نہیں دیتی ہر طرف کیوں دسمبر کی ہولناک اور سفاکی پھیلی ہوئی ہے
۔
خون کے قطروں سے دیں گے ہم حساب زندگی
 غازہ اسلام ہے،  خون شہیداں سر بسر
بےشک  سانحہ پشاور کے قاتلوں کو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ابھی تک ہم اس سوچ کو اپنے انجام سے ہمکنار نہیں کرسکے جو ہمارے بچوں کو قتل کرنے کے درپے ہے ابھی تک دہشت گردی بھی موجود ہے  ۔۔

جب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا

اس موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہوئے  شہداء پشاور کی یاد میں شمعیں روشن کی جارہی ہیں۔ جبکہ مختلف سیمینارز اور تقریبات میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم شہداء کو خراج عقید ت پیش کیا جائے گا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سرگرم عمل پاک فوج اور شہداء کے لواحقین سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاورمیں آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں نے حملہ کرتے ہوئے  معصوم بچوں کونشانہ بنایا اور100 سے زیادہ طلباء کو  بڑی بے دردی اور سفاکانہ طریقے  سے شہید کر دیا تھا۔ شہدا کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے، دہشت گردوں نے اسکول پرحملہ کرکے علم کی شمع بجھانا چاہی لیکن قوم کے حوصلے پست نہ ہوئے۔

پاک قوم نے اس المیہ کے بعد  نئے عزم کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی جبکہ حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے لئے قومی ایکشن پلان شروع کیا،۔۔۔۔

اس بات پر ہے سارے زمانے کو اتفاق
یاد سدارہےگی شہادت پشاور

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار