ایشیا اردو

      تحریر : رقیہ گل
بارہ سالہ ساجدماں کی گود میں سر رکھے ہاتھوں پر لگے زخموں کی تکلیف کا بتا کرایک دن کام سے  چھٹی کی ضد کر رہا تھا اماں میں آج کام پر نہیں جاوں گا۔۔۔۔۔
    ماں امیر ہو یا  غریب  اپنے بچے کیلئے ایک جیسا دل رکھتی ہے۔ساجد کی ماں کی آنکھوں  میں بھی اپنے بچوں کیلئے اونچے خواب جگمگاتے تو تھے مگر جلد ہی ان کی روشنی ماند پڑ جاتی تھی ۔۔
ماں نےبیچارگی سے دردکو دل میں آنسو کوآنکھوں میں  چھپائے روتے ہوئے ساجد کو
سینے سے لگا تے ہوئے درد بھر ے
لہجے سے بولی میرے چاند اب تم کام نہیں کرو گے تو تمہارا بیمار مزدور باپ کیسے کرے گا ۔میری جان آج تم زیادہ کام نہ کرناتھوڑا کر لینا لیکن بیمار باپ کی کچھ تو مدد ہو جائے گی۔۔
""حساس طبیعت ساجد کا شمار بھی ان ننھےمنے تاروں میں ہوتا ہے جن کے نصیب کی سیاہی کبھی مٹنے کا نام تک نہیں لیتی
بچپن سے سخت محنت کے باوجود ذلالت جن کا مقدر ٹھہرتی ہے۔جنہیں معاشرے پر بوجھ سمجھا جاتا ہے جنکی موت پانی کے بلبلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور زندگی کی قید میں تمام عمر مشقت کے ساتھ لوگوں کانارواں سلوک ان کا مقدر ٹھہرتا ہے""
ماں نےپاس چار پائی پر نمونیا میں مبتلا آٹھ سالہ نسریں کو دیکھا جو بے سدھ پڑ ی تھی۔
اس کی تھوڑی بہت دوائیاں ساجد کی دیہاڑی ہی سے آتیں ابا کے پیسوں سے دو وقت کی روٹی ہی مل جانا غنیمت تھی
وہ تھوڑی بہت دوائیاں جن سےنسریں کی سانسوں کی ڈوری چل رہی تھی ۔
ان حالات میں غریب گھرانے کیلئے ایک دن کی چھٹی کا مطلب ایک دن بھوکا رہنا ہے
اس لیے یہاں خوابوں خواہشوں اور کوششوں کا دائرہ صرف روٹی کے حصول  تک محدود رہتا ہے۔ماں نے ساجد کو سمجھایا نیم گرم پانی سے زخموں کو دھویا مرہم لگائی۔کسی نہ کسی طرح اسے کام پر بھیج دیا ساتھ نصیحت کی میرے بیٹے اپنے کام پر توجہ دیا کرو دوستوں کی باتوں پر دھیان نہ دیاکروآج کے دور میں مخلص کوئی نہیں ہے۔۔
کام سے انکاری ساجد مسلسل روتا منہ بسورتا ہوا اپنا ڈبا اٹھایا باہر نکل گیا اس ڈبے میں بغیر سالن کے ایک روٹی تھی جودوپہر کو ساجد کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا تھا.ساجد کا کام گھرسے 2کلومیڑ دور بننے والی فیکٹری میں اینٹیں پتھر بجری اٹھانا تھا ۔جو اس کے وجود سے بھی زیادہ سخت وہ اپنے زخمی ہاتھوں سے جب اٹھاتا تو تکلیف ہوتی دل میں ماں سے صبح لگائی گئی ضد اور اس کے بر عکس ماں کے پیارے سے بولے گئے الفاظ میرے بیٹے کام پر جاو اسے دکھ دیتے ہیں ۔۔۔
دن تو گزر گیا شام کو گھر کا رخ کیا تو راستے میں اسے فٹ پاتھ پر ہم عمر بچے نظر آئے جنکا کوئی گھر نہیں ہوتا ۔جن کافٹ پاتھ اورمحلے کی گلیاں ہی مسکن ہوتی ہیں ۔یہ گلیاں ہمارے بغض ذدہ معاشرے کی طرح ان کے ساتھ سوتیلی ماوں جیسا سلوک نہیں کرتیں اس لیے انہیں عزیز ہوتی ہیں ۔۔۔
یہ وہ بچے ہیں جو دن بھر مختلف مزدوری کرکے رات کو صمد بانڈ کا نشہ اپنے پھیپھڑوں میں اتار کر سو جاتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر اس بے حس معاشرے کا مردہ ضمیر نہیں جاگتا ساجد ان کے پاس چلا جاتا ہے ۔تھوڑی بہت دوستی تھی دکھ تو سب کا سانجھا ہی تھا۔ساجد کو گھراور ماں باپ میسر تھے۔ننھے ساجد کے دماغ نے سوچا اصل آزادی تو یہ ہے اپنی مرضی سے دل کرے توکام کرنا نہیں تو مزے کی نیند سو جانا۔ابا کی مار ماں کی ڈانٹ اور معاشرے کی پھٹکار سے بچنے کا واحد حل ہے بچوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا اپنے گروپ میں شامل کر لیا ۔جلد ہی یہاں سے کہیں دور بسیرا کرنے کیلئے چل پڑے ۔۔۔
اس سے پہلے ساجد کا باپ اسے ڈھونڈ نے آپہنچا ۔اس روز کا سورج ساجد کی ماں کو جلاتا تڑپاتا غروب ہوگیا ۔ایک طرف بیمار بیٹی تھی اور دوسری طرف ساجد کی گمشدگی باپ بھی ساجد کو ڈھونڈتا پھرتا رہا ۔مگرآخر سانس کے چلنے کا تعلق روٹی سےوابستہ ہے۔اب وہ روزانہ مزدوری کے دوران بیٹے
کو ڈھونڈتا رہتا ۔زبانی کلامی لوگوں کو حلیہ بتاتا معلوم کر تا رہا ۔اسے حالات میں کبھی  تصویر  ہی کہاں بنوائی  تھی ۔۔
ادھر کچھ دن نسریں کی دوائیوں کا سلسلہ جو رکا تو اسکی طبیعت بگڑ نے لگی۔دونوں میاں بیوی بھاگم بھاگ اسے قریبی سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ لے کر پہنچے ۔نسریں کی ماں رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔نسریں کا باپ اس وقت خود کو دنیا کو سب سے بد قسمت باپ تصور کر رہا تھا ۔اسٹور سے خالی ہاتھ لوٹ آیا تھا کہ دوائیاں یہاں بھی پیسوں سے ملتی تھیں ۔۔کہاں سے لاوں دوائیاں؟؟؟
اچانک وہ لوگوں کے سامنے جاکر ہاتھ پھیلا کر مدد مانگنے لگا روتا بےقراری سے دوائی کی پرچی دیکھاتا پھر مدد کی درخواست کرتا۔۔شہر میں پیشہ ور گداگروں کے بڑ ھتے رحجان کی وجہ سے کئ لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔کچھ لوگوں نے مدد بھی کی جو نا کافی تھی ۔یوں اپنی بچی کی زندگی کیلئے وہ بھیگ مانگتے مانگتے کچھ پیسے اکھٹے کرکے کچھ دوائیاں لے کر بھاگتا ہوا ایمرجنسی وارڈ پہنچا ۔مگر دروازے پر ہی بیوی کی زوردار چیخ نے اسے ہلا دیا ننھی نسریں تتلی کی مانند زندگی کی ہتھیلی میں دب کر اپنے کچے رنگ چھوڑ  گئی تھی ۔ماں باپ رنگوں سے خالی بےجان جسم کو اٹھائے زندگی کا نوحہ پڑھتے روتے سسکتے باہر آئے مگر ان کے ساتھ چپک کر چلتی غربت  بھی افسردہ ہوئے بغیر دانت نکالےقہقے لگاتی ہوئی ان سے چمٹی چلی آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔
""غربت و افلاس میں اس قدر مسکراہٹ
زندگی تجھے یوں بھی  بسر کیا جاتا ہے
"""

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار