ایشیا اردو

یارب توں نےرحمت برسا کر
اپنی مخلوق کو دربدرکر دیا

تحریر __رقیہ گل

کہنے کو ایک خبر ہے فلاں فلاں علاقے زیر آب آگئے مگر کبھی یہ سوچا ہے کہ ایک سیلابی ریلا کتنے خواب ساتھ بہالے جاتا ہے۔۔
برسوں کی جمع پونجی سے بنائے گئے ٹھکانے مال واسباب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اونچی جگہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے چیختے چلاتے مدد کو پکارتے انسان حسرت بھری نگاہوں سے اپنے گھروں کو جن کے آنگن سے جوڑی یادیں وراثت میں ملی جائیدادیں ملبے کا ڈھیر بنتےدیکھتے ہیں ۔کئی برسوں کی محنتیں زندگی کی رونقیں آنکھوں کے سامنے ملیا میٹ ہوجاتی ہیں ۔۔
بادشاہوں کی زندگی بسر کرنے والے آنکھوں میں آنسو دل میں درد لیے بےبسی کے عالم میں گداہوں کی طرح دربدر ہوگئے ہیں۔۔
آسمان سے برسنے والا پانی لاکھوں انسانوں کو خون کے آنسو رولا دیتا ہے والدین کو بچوں اور بچوں کو والدین کی آنکھوں کے سامنے موت کے منہ دھکیل دیتا ہے ۔لاشیں آنکھوں کے سامنے تیر رہی ہیں ہم بے بسی سے دیکھ رہے ہیں یہ کیسا امتحان ہے۔۔
جانور جوزرائع معاش تھے جن کی وجہ سے چولہے جلتے تھے آنکھوں کے سامنے مر رہے ہیں چولہے بجھ گئے ہیں ۔وہ فصلیں جن کی پیداوار پر سہانے خواب دیکھے دن رات محنت کی تباہ برباد ہو گیں جواناج گھروں میں رکھا تھا وہ نہ رہا آگے بھی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
بےسروساماں خالی ہاتھ انجان منزلوں کی طرف جارہے ہیں کوئی ٹھکانہ نظر نہیں آتا نہ کوئی چھت ہے کھلے آسمان تلے آس بھری نگاہیں اور لب خاموش ہیں دل زخموں سے چور ہیں کرب کا یہ عالم ہے سب کچھ فنا ہوتا ہوا لاچار مجبور ہو کر آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
ہمارے عزیز جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ہم سے جدا ہو رہے ہیں والدین کی آنکھوں کے سامنے ان کے لخت جگر ان کو بچاتے رہے خود چلے گئے جوان کے لئے کل کائنات تھے
والدین تڑپتے چیختے چلاتے رہے وہ چند منٹوں میں  تیز رفتار پانی کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہوئے جن کی واپسی کے کوئی راستے نہیں جن کی یادوں کے کوئی نشان نہ بن سکے۔۔
وہ بنت حوا جہنوں نے کھبی چار دیواری کے باہر قدم ہی نہیں رکھا تھا ۔جن پر کبھی ابن آدم کی نظر ہی نہیں پڑی تھی ۔جن کے والدین نے لاڈوناز سے پریوں کی طرح رکھا آج وہ بغیر چھت کھلے آسمان تلے سڑکوں پر لوگوں کی نظروں کانشانہ بن رہی ہیں والدین درد کو دل میں لے بے زبان بنے کس قدر کرب میں تڑپ رہے ہیں ۔وہ پھول جیسے معصوم بچے جنکو والدین نے ہمیشہ اپنے پروں کے سائے تلے رکھا آج وہ بغیر چھت کے طوفانی بارشوں میں اس قیامت خیز منظر میں سڑکوں پر پڑے بھوکے پیاسے کھانا مانگ رہے ہیں معصوم بچوں کی آوازیں گھر جانے کی ضد ہے ۔والدین خالی ہاتھ بےسروساماں بےبس خاموشی کے شور میں آس بھری نگاہوں سے ان کو دیکھ کر نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں کرب میں تڑپتے ہیں بچے بھوک سے مر رہے ہیں ۔۔۔
وقت کے شنہشاہ ہو کر آج گداہوں گداہوں کی طرح دوسروں کی مدد کے منتظر ہیں یا خدا یہ کیسا امتحان ہے
 
نہ کوئی ٹھکانہ نہ گھر ہے
ساری مخلوق  دربدر   ہے
ہم تھے وقت کے شنہشاہ
اب نہیں  بیٹھنے کو جگہ

کہیں انسانیت نظر نہیں آتی دل سخت خون سفید ہیں ہماری مائیں بہنیں معصوم بچے دربدر ہوکر سڑکوں پر بےیارو مدد گار پھر رہے ہیں ۔۔
معصوم بچوں کی پکاریں بےبس ماوں کی آہیں کانوں میں گونج رہی ہیں دل خون کے آنسو روتا  
ہےکلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔
یا رب تیرے کن فیکون کے منتظر ہیں تیری رحمت کے خزانے بےشمار ہیں ہم تیری مدد کے طلبگار ہیں اس آزمائش سے نجات عطا فرما۔آمیں

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار