ایشیا اردو

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے بعد اپوزیشن کے ساتھ چلنے کا اعلان کر لیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف، حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان، بی اے پی کے خالد مگسی، بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے قائد خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم تاریخی موقع پر آج جمع ہیں، قومی قیادت امتحان سے گزر رہی ہے، ہم آج آپ کے ساتھ شریک سفر ہوئے ہیں۔ تبدیلی میں اپوزیشن کے ساتھ ہیں، ایسے دور کا آغاز کریں جہاں سیاسی اختلاف کو دشمنی نہ سجھاجائے، ہمارا آپ کے ساتھ چلنے میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ معاہدے اور مطالبے کی ایک ایک شق عوام کے لیے ہے۔
شہباز شریف
 اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، شاید دہائیوں میں ایسا موقع آیا جب پوری قومی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر قومی جرگہ کی صورت میں موجود ہے۔
 شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے ملاقات کی اور 20 منٹ میں معاملات طے ہوگئے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر نئی روایات قائم کرسکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا شکر گزار ہوں، متحدہ نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان تاریخی ہے، کراچی کی ترقی کےلیے مل کر چلنا ہوگا، پیپلزپارٹی اورایم کیوایم کے ورکنگ ریلیشن کا عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں۔ عمران خان وزیراعظم نہیں رہے، اب آپ اتنی دیر نہیں بھاگ سکتے کل ہی ووٹنگ رکھیں۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ اب وزیراعظم کے پاس کوئی اپشن نہیں رہا، عمران خان استعفیٰ دے۔ وزیراعظم کی اکثریت مکمل ختم ہوچکی ہے۔ بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی اپوزیشن میں ہے۔ کل اسلم بھوتانی شامل ہوئے۔ ایم کیو ایم اپوزیشن میں شامل ہوگئی ہے۔ پاکستان کی ترقی کےلیے مل کر چلیں گے، حکومت کی شکل میں سازش کی وجہ سے پورا پاکستان نقصان اٹھا رہا ہے۔ 2018 کاالیکشن ایک سازش تھی، 2018 میں الیکشن کے نام پر سلیکشن ہوئی۔
مولانا فضل الرحمان
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف سندھ اور کراچی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہے جس کے ثمرات پوری قوم کو پہنچیں گے۔ ساڑھے تین سال پہلے جس ڈرامے کا آغاز ہوا تھا اس کا انجام ہو گیا ہے۔ وزیراعظم کو آج استعفیٰ دے دینا چاہیے، اب تہمارے لیے چاٹنے کیلئے پانی کی ایک بوند بھی نہیں رہی، اب سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے، سنا ہے وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے، ملک کو دوبارہ کھڑا کرنے کیلئے یکجہتی کی ضرورت ہو گی۔ یقیناًہمارے سامنے چیلنجز ہیں۔ جن دوستوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا وقت ہے قومی دھارے میں شامل ہوں، تمسخر کی سیاست نے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، پاکستان میں صحتمند سیاست کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں، جھوٹی سیاست کا آج خاتمہ ہورہا ہے، 4 سال پہلے شروع ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا، اس کے اثرات قوم تک پہنچیں گے، ایم کیو ایم کا فیصلہ پاکستان کیلئے سیاسی یکجہتی کا اظہارہے، ایم کیوایم کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں، ایم کیو ایم عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دےگی۔ متحدہ اپوزیشن کی تعداد 175 ہو گئی ہے۔ عالمی سازش تب ہوئی تھی جب عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا تھا، اب کوئی عالمی سازش نہیں ہے، ڈرامے مت بناؤ، آپ کی اپنی حیثیت نہیں ہے، آپ کو کوئی خط بھیجے، ہم نے عالمی ایجنڈے کو ناکام بنانا ہے، ہم ایک خود مختار ریاست کا تصور رکھتے ہیں۔
معاہدہ کی توثیق
 قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گزشتہ رات ہونے والے معاہدے کی توثیق کردی ہے۔
 ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما نسرین جلیل نے کراچی میں پارٹی کے مرکز کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔
 عدم اعتماد
خیال رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس 31 مارچ تک ملتوی کردیا تھا۔
وزیرداخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3 اپریل کو ہوگی۔
اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبرز گیم 172 سے زائد ہو گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رکن قومی اسمبلی بھی منحرف ہوچکے ہیں اور وہ پہلے ہی وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی پہلے ہی حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کرچکی ہے۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار