نعیم مسعود


کچھ آپ بیتی اور کچھ جگ بیتی کا موازنہ اور اجتماعی و انفرادی مطالعہ، پھر تھوڑی سی توجہ ڈیٹا لینے اور اس پر غور کرنے سے جو ریسرچ کا دریچہ آپ کے سامنے کُھلتا ہے وہ کسی معروف ریسرچ جرنل کے کوالٹی پیپر سے کم نہیں ہوتا۔ سیاسی و سماجی  کسوٹی کے ادراک کے سنگ نفسیاتی و طبعی رجحانات کا تھوڑا سا جائزہ آپ کو بڑے اسباق سمجھانے اور کئی معاشی و معاشرتی گتھیاں سلجھانے میں معاون ہوتا ہے!

ایک بات شروع ہی میں سپردِ قلم کردوں کہ میں نے اپنی پولیس کو کورونا وبا میں کمال جانفشا پایا ! یونیورسٹیوں سے روزانہ کی بنیاد پر روابط ہیں ، کبھی یہاں سیمینار کبھی وہاں فورم لیکن کبھی کس پروفیسر نے آواز نہیں دی کہ میرا سوشل سائنسز کا یہ مقالہ پڑھئے لنک بھیج رہا ہوں، نہ کبھی پی ایچ ڈی یا ایم فل اسکالر ہی نے کہا کہ یہ پالیسی سامنے لایا ہوں یا یہ فارمولا اخذ یا دریافت کیا ہے، کسی جرنلزم کے استاد نے نہیں کہا کہ فیچر کی اہمیت، بہترین فیچرز کے قاری پر اثرات یا فلاں فیچر رائٹر کا تنقیدی جائزہ دیکھئے، ایجوکیشن کے مضمون والے نے نہیں کہا یونیورسٹیوں میں کرائم سنڈیکیٹ پر قدغن کے زریں اصولوں پر یہ لکھا ہے، کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی پھر رہے ہیں مگر کھوکھلے، بس ہوا میں تیر  یا دوسروں پر تنقید۔ سینکڑوں سے سوشل میڈیا پر بھی رابطہ ہے، کوئی پٹواری  تو کوئی انصافی بن کر اپنے لیڈر کی خامیوں کو خوبیاں اور مخالف لیڈر کی خوبیوں کو خامیاں بنانے میں ماہر ملیں گے تاہم اپنے مضمون یا پروفیشن کا محقق چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا !

بہرحال، پولیس جیسے ڈیپارٹمنٹ میں باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ یقین کیجئے ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی۔ بیدار مغز بیوروکریٹ خواجہ شمائل سے کبھی ملاقات ہو تو وہ کئی آفیسرز کی وہ شاندار تصویر کشی کرتے ہیں کہ پولیس اور دیگر آفیسرز کا پروفیشنلزم قابلِ رشک دکھائی دیتا ہے۔

اجی،  یہ موٹر ویز پولیس آسمان سے تو نہیں اُتری کہ کسی امریکہ یا برطانیہ سے کم معیار اور وقار نہیں۔ سابق آئی جی موٹر ویز پولیس یا پنجاب پولیس عامر ذوالفقار اِدھر ہوں یا اُدھر کمال رکھتے ہیں ، یہی عالم کلیم امام کا ہے سندھ میں ہوں یا موٹر ویز کی سربراہی پتہ چلتا ہے پروفیشن سے پیار  ہے، اشفاق خان لاہور میں ڈی آئی جی ہوں، سرگودھا میں ڈی پی او ہوں یا ٹریننگ کالج کے سربراہ لوگوں کی رائے بتاتی ہے کہ وہ انمول اثاثہ ہے۔ میں کوئی نیوز ایڈیٹر تو نہیں لیکن نایاب حیدر ( ڈائریکٹر) بطور ترجمان آئی جی پنجاب یا پنجاب پولیس اپنی کارکردگی اور رپورٹس بھیجتے رہتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے آئی جی  پنجاب ڈاکٹر عثمان انور بھی زیرک آفیسر ہیں، پنجاب اور سندھ کے سںگم پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں پر قابو پانے کیلئے آج کل پرعزم ہیں، سندھ اور پنجاب حکومتوں کو چاہئے کہ اس علاقہ کو آباد کریں۔ بہرحال تکنیکی معاملات جہاں کہیں سمجھ نہ آئے تو نایاب حیدر عمدگی سے بریف کرتے ہیں۔

 ایک دفعہ ایک وفاقی فیڈرل سیکرٹری ہیلتھ کے حوالے سے راقم نے ایک ٹاک شو میں وہ کچھ کہہ دیا جو بنتا نہیں تھا، بعد میں اس کا فون آیا کہ "یہ میرا قصور ہے، کمیونیکیشن کا سلسلہ درست ہوتا تو ایسا نہ ہوتا !" گویا ہر ادارے کا کمیونیکیشن یا تعلقاتِ عامہ نظام ہوتا ہے گر یہ اپاہج ہو تو غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ الٹا محکمہ پر پیرا سائیٹ بنتا ہے!

خیر ہم نے بی اے ناصر کو ڈی پی او سے ایڈیشنل آئی جی اور انٹیلی جینس اداروں تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ایک نظر میں کرتے پایا۔ ایسے بھی پولیس آفیسر وہاڑی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب اور شیخوپورہ کو ملے کہ، ان کے تبادلوں پر شہری روئے۔  زمانہ بتاتا ہے، بلال صدیق کمیانہ، محبوب اسلم، رانا ایاز سلیم، ڈاکٹر حیدر اشرف، سہیل سکھیرا، بلال افتخار، محمد حسن اقبال، علی رضوی، فیصل کامران جیسے وطن دوست آفیسرز پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں جو لاء سینس کا جوہر بھی ہیں، اگر کہیں سقہ شاہی من میں آئی بھی تو ان آفیسرز نے کنٹرول کیا۔  

عہد حاضر میں ایک اے ایس آئی سے انسپکٹر تک اب تو تعلیم یافتہ اور پوری سوسائٹی کے نمائندگان  کے علاوہ درد دل رکھنے والے بھی ہیں، پھر بھی روایتی امیج میں اٹھان کیوں نہیں؟ اس پر تمام صوبوں کے پولیس افسران، ماہر نفسیات ، ماہر قانون اور سوشیالوجیکل ماہر پر مشتمل ایک تھنک ٹینک بنانا چاہئے! جہاں تک ممکن ہو تھانوں کو بھوت بنگلوں اور آسیب کے سایوں کی شکل سے نکالنا ہوگا۔

مانا کہ حقیقی ریفارمز لانا اور ان سے ثمرات سمیٹنا آسان کام نہیں مگر اہداف زیادہ ہوں تو چیلنجز بھی زیادہ ہونا فطری ہے، اور تساہل پسندی سے منزل کھو جایا کرتی ہے۔ پھر وہ ارتقائی رومانس ہی کیا ہوا جس کے ایک طرف تسکین نگر اور دوسری طرف چیلنجز کا مے کدہ نہ ہو ؟

 اگرچہ موٹر ویز پولیس اور ہائی ویز  ( فیڈرل باب) میں جاکر یہی آفیسرز کالونیل لیگیسی بالائے طاق رکھ لیتے ہیں، تو روایتی تھانہ کلچر میں بھی کالونیل لیگیسی پسِ پشت ڈالی جا سکتی ہے بشرطیکہ سوسائٹی اور متعلقہ ادارے بھی رویوں میں ذمہ داری رکھیں. فیڈرل باب تو اسلام آباد پولیس بھی ہے، جہاں ایک شہر میں ایک آئی جی اور کئی ڈی آئی جی اور ایس پی مگر معاملات ناقص، میرٹ کا فقدان، خواہ مخواہ غصیلہ انداز، نفرت آمیز رویہ، ریکارڈ کیپنگ بھی کمزور ۔۔۔۔ آخر کیوں؟

المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہنوز سوسائٹی پولیس سے بھی اتنی خوفزدہ ہے جتنی مجرم سے، مجرم اور ملزم سے کم وبیش ایک سا سلوک ، ڈیجیٹل رپورٹ تو درج کرنے کا بندوبست موجود مگر ایف آئی آر میں ہنوز ڈھیل اگر ملزم پارٹی مستحکم ہو۔ اگر مدعی "کاریگر" ہو تو درخت کے خلاف بھی فٹافٹ ایف آئی آر ، ایک حالیہ سروے کے مطابق تھانہ سمبڑیال (سیالکوٹ)، تھانہ ظفروال (نارووال), پولیس اسٹیشن بارہ کہو اسلام اباد، پولیس اسٹیشن کراچی کمپنی اسلام آباد ، شیرا کوٹ لاہور، کلور کوٹ بھکر ، عبدالحکیم خانیوال  سمیت متعدد دیگر تھانے پچاس سال پیچھے چل رہے ہیں۔ اہم ڈویژنز میں سے لاہور ڈویژن کے 139, سکھر کے 151، حیدرآباد 152, کراچی ڈویژن 116, پشاور ڈویژن 53، کوئٹہ ڈویژن 35 تھانوں میں سے کئی تھانے تاحال بھکر میانوالی اور راجن پور کا روایتی تھانہ کلچر شو کرتے ہیں۔ کیا ان ڈویژنز پر بھی دیانتدارانہ فوکس ممکن نہیں کہ بناؤ پسماندہ ڈویژنز کی طرف بھی سفر کرے ؟ اور تو کسی شہر کا کیا کہنا ، کراچی اور لاہور کے ناکہ کلچر سے کسی حد تک جان چھوٹی ہے تو بعض افسروں ذاتی ناکہ سسٹم ان دونوں شہروں میں شہریوں کا آج بھی ناک میں دم کر دیتا ہے۔ لاہور کا ٹریفک وارڈن ماضی کی نسبت تنزلی کا شکار ہے، ایک چوک میں چھ لوگ ہوں تو پانچ "موبائل کورس" پر دکھائی دیتے ہیں مگر دی پولیس افسر 2002 دیکھیں تو محسوس ہوتا ناروے سے بہتر نظام ہوگا تاہم دوران خانہ 1861 کا برٹش مارکہ سسٹم نظر آتا ہے۔ معاشرتی ارتقاء سے ہم آہنگی کا فقدان ملے گا۔ پورے پاکستان اور بالخصوص پنجاب اور سندھ کا نظام اچھے ضلعی پولیس افسر اور  تھانہ ایس ایچ او پر منحصر ہے کسی ایکٹ یا سسٹم پر نہیں گویا یہ ضروری ہے کہ صوبائی آفیسرز اور ڈویژنل سے ضلعی آفیسرز تک کمپرومائز اسکیم سے اجتناب کیا جائے۔

یہ ضروری ہے کہ جہاں آفیسرز اپنا رویہ سائنٹفک کریں وہاں پولیس کے وسائل میں بہتری، جدید ٹریننگ، تقرری کا بہتر معیار، سیاسی مداخلت پر قدغن ، اینٹلی جنس صلاحیتوں میں اضافہ، مربوط معاشرتی ربط، انسداد دہشت گردی کیلئے منظم تربیت سازی اور جدید آلات کی فراہمی، انٹرنیشنل ایکسپوزر کے ساتھ اے سی آر کا باریک بینی سے جائزہ اور بار بار قانون کو نظر انداز اور من مانی پر کڑی سزا بھی ضروری ہے چاہے آفیسر کا لیول کچھ بھی ہو، کنڈکٹ کا دور بینی و خوردبینی جائزہ نہ ہوا سب کیا دھرے کا دھرا رہ جائے گا ۔ اگر سوسائٹی چاہتی ہے کہ پولیس اس کی مدد کرے تو سوسائٹی کو بھی پولیس کی مدد کرنی ہوگا ، کہ اس میں بلا کے محنتی اور غضب کے انسان بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا آپ سوسائٹی کیلئے وقف کیا ہوتا ہے!

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار