ایشیا اردو
    رکے تو چاند،چلے تو ہواؤں جیسا تھا
    وہ شخص دھوپ میں بھی چھاؤں جیسا تھا

                                                              تحریر:    راجہ ولید
 خالق کائنات نے کشمیر کی مٹی میں ایسی خصوصیت رکھی ہے کہ اس کی فضاؤں میں ایسی قد آور شخصیات نے جنم لیا جن کی خداداد صلاحیتوں، بصیرت،معاملہ فہمی کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت راجہ محمد آزاد خان کی تھی جنہوں نے زمانہ کو جینے کا نیا انداز سکھایا اور تاریخ کے اوراق پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔اس دنیا میں کروڑوں بلکہ اربو ں کھربوں لوگ آئے اور چلے گئے لیکن تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہے جنہوں نے خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا اورمخلوق خدا کی بہتری کیلئے قربانیاں دیتے ہوئے امر ہو گئے۔ انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں جنہوں نے ظلم و جبر اور مصائب کا دلیری سے مقابلہ کیا اور کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور اپنے سیاسی کیریئر میں اپنے لیے کچھ نہیں بنایا بلکہ ملک و قوم کا مفاد مقدم رکھ کر عوامی خدمت کو ترجیح دی۔راجہ محمد آزادخان ضلع باغ کے علاقے پیل کے ایک نامور گھرانے میں پیداہوئے۔راجہ محمد آزاد خان نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول ملوٹ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ سکول باغ سے میٹرک کا امتحان پاس کیااورانٹر اور گریجویشن کے لیئے میرپور چلے گیئے۔جامعہ پنجاب سے انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی۔اسی دوران میں راجہ ممتاز راٹھور اور سردار سکندر حیات ان کے قریبی حلقہ احباب میں شامل ہو گئے۔ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد راجہ صاحب نے پہلے باغ اور بعد میں دھیرکوٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔راجہ آزاد خان نے راجہ ممتاز حسین راٹھور کے ساتھ مل کر زمانہ طالب علمی ہی سے عملی سیاست کا  آغاز کر دیا تھا۔ انہوں نے پہلی دفعہ آزاد کشمیرمیں راجہ ممتاز حسین راٹھور کے ساتھ مل کر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھ کرطلبہ سیاست میں اپنے نام کا سکہ جمایا اور طلبہ حقوق کی خاطر بھوک ہڑتال کی۔راجہ آزاد کالج دور میں ہاکی اور فٹ بال کے بہترین کھلاڑی شمار کیے جاتے تھے۔ وہ میرپور میں ٖفٹ بال ٹیم کے کپتان تھے۔دوران طالبعلمی وہ بزم ادب سوسائٹی کے صدر رہے اور طلبہ کے حقوق کی خاطر ہر محاذ پر سربکف رہے۔1962میں گورنمنٹ ڈگری کالج میرپور میں بحیثیت طالبعلم اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔۔1965-66کے دوران پنجاب یونیورسٹی کے فلور پر بحیثیت قانون کے طالبعلم آپ نے سرگرمیاں جاری رکھیں۔1968میں ملوٹ یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1970میں آزادکشمیر میں پہلے عام انتخابات میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر غربی باغ سے پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔راجہ محمد آزاد خان ایک قابل وکیل اور درددل رکھنے والے انسان تھے۔ آ پ نے ہمیشہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کی آواز کو بلند کرنے کا بیڑا اٹھایا اور مستحق افراد کے مقدمے بلا معاوضہ لڑے اور قانون و انصاف کی سربلندی کیلئے سربکف رہے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں سے انہوں نے تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے سیاسی و سماجی میدان میں اپنا نام بنایا۔ راجہ محمد آزاد خان نے ہمیشہ  ایک نڈر قائد کی طرح اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر حق و سچ کی خاطر اپنے اصولی موٗقف پر ڈٹے رہنے کو اپنا سیاسی وطیرہ بنائے رکھا۔دھیرکوٹ میں وکالت کے دوران انہیں مجاہد اول سردار قیوم کی رفاقت کا موقع ملا۔آپ کا شمار سردارقیوم خان اورراجہ ممتاز حسین راٹھورکے قریبی دوستوں میں کیا جاتا تھا۔۰۷۹۱ ء؁ کے انتخابات میں آپ نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے انتخابی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور تاریخ رقم کر کے واضح برتری سے کامیاب قرار پائے۔ ممبراسمبلی منتخب ہونے کے بعد آپ نے قانون ساز اسمبلی میں عوام کے مؤقف کو بڑی بہادری اور جاندار انداز میں پیش کیااور کبھی عوامی حقوق پر سودے بازی نہیں کی۔      مجاہد اول سردار عبد القیوم خان،سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان اور راجہ ممتاز حسین راٹھور جیسے فہم و فراست والے قائدین ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔خدا نے انہیں زیادہ عرصہ جینے کی مہلت نہ دی لیکن جتنا عرصہ وہ زندہ رہے آزاد کشمیر کی سیاسی بساط کے مرکزی مہرے کے طور پر سیاسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان کی گفتگو متانت سے بھرپور اور ان کی نجی باتیں اخبارات کی شہ سرخیاں بن جایا کرتی تھیں۔ وہ بلا امتیاز ذات،نسل،قبیلہ اور جماعت عوامی خدمت کے علمبردار تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ آزاد کشمیر کے سیاسی قائدین ان کے سامنے طفل مکتب تھے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ ان کی دور اندیش سوچ اور سیاسی بصیرت کے باعث وہ کشمیری قوم کے لئے ایک ایسا سیاسی پلیٹ فارم بنانا چاہتے تھے جہاں سے کشمیری اپنے تشخص اور قومی وقار کو برقرار رکھ سکیں، ان کی ساری زندگی کشمیری عوام کی اپنی پہچان اور الگ وقار کی خاطر جدوجہد میں صرف ہوئی۔
۔ 1973-74میں وفاقی حکومت کی ایما پر صدر آزادکشمیر کے خلاف عدم اعتماد میں شامل نہ ہونے کی پاداش میں قید وبند کے طویل سلسلہ سے گزرنا پڑا۔ جس کے دوران آپ کو بے پناہ جسمانی تشدد اور ذہنی اذیتیں دی گیئں۔ دلائی کیمپ میں تشدد کے دوران آپ کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ آپ کے جسم پر تشدد کے نشانات مرتے دم تک رہے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے بے پناہ لالچ دی گئی۔ ہر قسم  کا دباؤ ڈالا گیا لیکن کوئی دباؤ کوئی لالچ آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیدا کر سکا۔ آپ نے وفاداری تبدیل نہ کی۔ آپ کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے ہتھیار ڈالتے رہے۔مارشل لاء دور میں تھوڑی دیر کے لیے یہ سلسلہ موقوف ہوا لیکن بحالی جمہوریت کے لیے آپ پھر میدان میں کود پڑے۔ قید و بند کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے جڑ گیا۔ پلندری، باغ، مظفرآباد  اور دیگر جیلیں ایوان اقتدار کے جبر اورآپ کے صبر واستقلال  اور پا مردی کی سینکڑوں داستانیں اپنے اند ر سمیٹے ہوئے ہیں۔راجہ محمد آزاد خان مرحوم کی زندگی کا خاصہ تھا کہ ہمیشہ ظلم و جبر اور استبداد کے خلاف صدائے حق بلند کی اور اپنی جان کی پروا ہ کیے بغیر عوامی حقوق کی سربلندی کیلئے جدوجہد کی،جھکنا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔مرحوم نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے اور نہ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہونے والے درویش صفت ریاستی رہنماء تھے۔بھٹو صاحب کی بی ایس ایف ہو یا جنرل ضیاء کا مارشل لاء کوئی بھی ظلم راجہ آزاد کو حق گوئی سے دور نہ کر سکا۔عہدوں اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ کا لالچ بھی ان کے راستے میں ریت کی دیوار ثابت ہوا۔یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ یہ درویش صفت سیاستدان بس یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کیا کرتے تھے۔عوام کے ساتھ گھل مل کر رہنا موصوف کی خداداد صلاحیت تھی۔جس گلی،محلے یا بازار سے گزرتے تو لوگوں کا جم غفیر ان کے پاس آ دھمکتا۔راجہ آزاد شعلہ بیان مقرر تھے۔ان کی گفتگو کے دوران لوگ سانس لینے کی فرصت سے محروم ہو جاتے۔ انہوں نے کبھی برادری یا کنبے قبیلے کی سیاست نہیں کی۔راجہ محمد آزاد خان متعدد مرتبہ سیاسی قیدی بنے۔دولائی جیل میں سیاسی قید کے دوران تشدد کی وجہ سے ان کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گیئ تھی۔ان کو سیاسی قیدی کی حیثیت سے ان کے آبائی گاؤں پیل سے دو مرتبہ پولیس کی بھاری نفری کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔۵۸۹۱؁  کے ضمنی الیکشن میں جب مجاہد اول غربی باغ ایل اے ۳۱ سے صدر ریاست بنے اور نشست خالی ہوئی تو راجہ آزاد غربی باغ کے مضبوط ترین امیدوار تصور کیے جاتے تھے مگر نجانے کس مصلحت کے تحت مجاہد اول نے انتخابی ٹکٹ ان کو دینے کے بجایئے اپنے بھائی سردار عبدالغفار خان مرحوم کو دیا۔اس بات پر راجہ صاحب بہت افسردہ رہتے تھے۔ آپ کو سیاست سے ہٹانے کیلئے پارٹی نے ایک سرکاری عہدہ پر فائز کردیا  اور 1987سے 1990 بحیثیت کسٹوڈین آپ نے عوام کی بے لوث خدمت کی۔ آج بھی ہزاروں لوگ ان کے کئے گیئے فیصلوں کی تعریف کرتے ہیں۔  راجہ محمد آزاد خان ۲۲ جولائی 1990 کو اس جہان فانی کو ہمیشہ کے لئے وداع کہہ گئے لیکن ان کے سیاسی کارہائے نمایاں عصر حاضر کے سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔اس وقت کے وزیر اعظم ممتاز راٹھور نے اپنی کابینہ کے ہمراہ پیل تشریف لائے اور مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔راجہ آزاد حقیقی معنوں میں عوام کے نمائیندے تھے،یہی وجہ ہے کہ ان کے مداح آج بھی ان کا نام لے لے کر دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:
                ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے،
                بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا،،

 

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار