ایشیا اردو

تحریر: آصف رضا ڈپٹی سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب

جنوبی پنجاب پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہے کیونکہ کپاس، گندم، کماد، مکئی اور باغات سمیت اہم فصلوں کی زیادہ تر پیداوار جنوبی پنجاب سے حاصل ہوتی ہے۔ اس خطہ کی خوش قسمتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کاشتکاروں کی خدمت، خوشحالی اور حوصلہ افزائی میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور کاشتکاروں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ زراعت کی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جنوبی پنجاب جس کی 77 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے کی ترقی کیلئے علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کردیا ہے جو کہ مکمل اختیارات کے ساتھ اپنا فعال کردار ادا کررہا ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور جنوبی پنجاب میں زرعی ترقی کیلئے پہلی دفعہ علیحدہ 11 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کیپٹن (ر) ثاقب ظفر کی زیر نگرانی اور سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب ثاقب علی عطیل کی زیر قیادت ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ مختلف فصلوں، باغات و سبزیات کی فی ایکڑ لاگت کاشت میں کمی کیلئے نہ صرف نئے آئیڈیاز متعارف کروارہا ہے بلکہ پیداوار میں اضافہ کیلئے اہم اقدامات کئے جارہے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے پانچ سر فہرست ملکوں میں ہوتا ہے۔ تاہم 2014-15 کے بعد کپاس کی پیداوار گرنا شروع ہو گئی اور حتیٰ کہ گذشتہ سال 2020 میں گراوٹ 1984 کے برابر آگئی اورگراوٹ کا 36 سال کا ریکارڈٹوٹ گیا۔ کپاس کی لاگت کاشت بڑھتی گئی اورفی ہیکٹر کپاس کم ہوتی گئی اور کسانوں کے لئے منافع بخش فصل نہ رہی جس سے ساؤتھ پنجاب جو کہ کبھی کپاس کا گھر تھا میں کپاس کے متبادل کے طور پرمکئی، مونگ، چاول کی کاشت شروع ہو گئی۔ 2020 میں اوسط پیداوار 445 کلوگرام فی ہیکٹر ہو گئی جو کہ قطعاً منافع بخش نہ تھی جس کی وجہ سے 2021 میں جنوبی پنجاب میں 20 فیصد کم رقبہ پر کپاس کاشت ہوئی۔ جنوبی پنجاب میں 29 لاکھ ایکڑ جبکہ پنجاب کے باقی حصوں میں دو لاکھ سے بھی کم رقبہ پر کپاس کاشت ہوئی۔ ان حالات میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب ثاقب علی عطیل کی زیر نگرانی کپاس کی فصل کے لئے ملک کا پہلا آئی پی ایم پروگرام تشکیل دیا گیا اور پنجاب پلاننگ کمیٹی کی منظور ی سے جنوبی پنجاب میں لاگو کیا گیا۔ اس منصوبے پر حکومت پنجاب کی کوئی رقم خرچ نہیں ہوئی تاہم جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع کی 41 تحصیلوں میں 120 نمائشی پلاٹ لگائے گئے اور آئی پی ایم کی ٹیکنیکس ہر دو ہفتے کے بعدکپاس کے کاشتکاروں کے موبائل فونز کے علاوہ فیلڈ میٹنگز میں پہنچائی گئیں۔ سال 2021 میں پاکستان میں 9 ملین گانٹھوں سے زائد روئی پیدا ہوئی جس میں پنجاب کا حصہ 56 فیصد سے زائد گانٹھیں ہے۔ اس سال کپاس کا گروتھ ریٹ گزشتہ سال کی نسبت  49فیصد زائد رہا۔ اس سال اوسط پیداوار 729 کلوگرام فی ہیکٹرہو گئی جو کہ پچھلے سال سے 64 فیصد زائد اور 2014 کے بعد ریکارڈ پیداوار رہی۔ اس سال کپاس کی کاشت میں ایک روپیہ سرمایہ کاری پر ایک روپیہ 69 پیسے کی آمدن ہوئی جو کہ کپاس کو قابل منافع فصل بتاتا ہے جبکہ آئی پی ایم کے 120 نمائشی پلاٹوں سے اوسط پیداوار 34 من فی ایکڑ رہی اورایک روپیہ پر 3 روپے 63 پیسے آمدن رہی جو کہ روایتی طریقہ کاشت سے 115 فیصد زیادہ منافع بخش ثابت ہوا۔ یہ واضح رہے کہ آئی پی ایم کی بدولت 57 فیصد کے قریب زہروں کا استعمال کم ہوا جس سے کسانوں کو 40 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ جنوبی پنجاب میں 2019-20 میں 6.786 ملین ایکڑ رقبہ پر گندم کاشت ہوئی جس سے 9.168 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی جبکہ فی ایکڑ اوسطپیداوار 33.78 من فی ایکڑ پیداوار رہی۔ 2020-21 کے دوران 6.794 ملین ایکڑ گندم کے زیر کاشت لایا گیا جس سے 9.239 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار 34 من رہی۔ اسی طرح جنوبی پنجا ب میں 2020-21کے دوران 1.184 ملین ایکڑ رقبہ پر چاول کی فصل کاشت ہوئی جس سے 1.061 ملین ٹن پیداوار جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار 22.40 من رہی جبکہ 2021-22 کے دوران 1.433 ملین ایکڑ رقبہ پر چاول کی فصل کاشت ہوئی اور 1.411 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار 24.62 من فی ایکڑ رہی۔ 2020-21 کے دوران 0.894 ملین ایکڑ رقبہ پر کماد کی فصل کاشت ہوئی جس سے 27.81 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی اور فی ایکڑ اوسط پیداوار 778 من فی ایکڑ رہی جبکہ 2021-22 کے دوران 1.006 ملین ایکڑ رقبہ پر کماد کی فصل کاشت ہوئی جس سے 31.38 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی اور فی ایکڑ اوسط پیداوار 780 من فی ایکڑ رہی۔ 2019-20 میں 0.361 ملین ایکڑ رقبہ پر مکئی کی فصل کاشت کی گئی جس سے 0.873 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار 60.42 من فی ایکڑ رہی۔ 2020-21 کے دوران 0.519 ملین ایکڑ رقبہ پر مکئی کی فصل کی کاشت ہوئی جس سے 1.613 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی اور فی ایکڑ اوسط پیداوار 77.74 من رہی۔ اسی طرح پھلوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ 2020-21 کے دوران 0.238 ملین ایکڑ رقبہ آم کے باغات کے زیر کاشت رہا جس سے 1.291 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار 135.60 من رہی۔ 2021-22 کے دوران مذکورہ کاشتہ رقبہ سے آم کی 1.541 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی جبکہ 162 من فی ایکڑ اوسط پیداوار رہی۔ 2019-20 میں 0.059 ملین ایکڑ رقبہ پر ترشاوہ باغات سے 0.330 ملین ٹن پیداوار جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار 150.78 من رہی۔ 2020-21 کے دوران ترشاوہ باغات کے مذکورہ کاشتہ رقبہ سے 0.414 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی اور فی ایکڑ اوسط پیداوار 189.46 من رہی۔ جنوبی پنجاب میں ٹماٹر،پیاز،بھنڈی ودیگر سبزیات کی کاشت اور پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس کے علاوہ لاگت کاشت میں کمی اور سبزیوں، پھلوں و روز مرہ کی خوراک کی کوالٹی میں بہتری کیلئے گندم، مکئی اور دوسری فصلوں پر مورنگا ایکسٹریکٹس کے بطور فرٹیلائزر سٹیمولینٹ تجربات کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ نارمل اور کلراٹھی زمینوں میں کاشتہ مختلف فصلات پر میگنیٹک ٹیکنالوجی کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کے فی ایکڑ منافع کو یقینی بنانے کیلئے بہاولپور، وہاڑی اور لیہ میں 1 ایکڑ پر آرگینک آرچرڈ ماڈل فارم بنائے جارہے ہیں جہاں سے کاشتکار مختلف پھلوں اور سبزیوں کی انٹر کراپنگ کے ذریعے 8 سے 10 لاکھ روپے سالانہ آمدن حاصل کرسکیں گے۔ پانی کے باکفایت استعمال کو یقینی بنانے کیلئے شعبہ واٹر مینجمنٹ کے تحت مختلف پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔ آبپاش زراعت کی پیداوار میں اضافہ کیلئے جدید ڈرپ/ سپرنکلر سسٹم اور سولر سسٹم کی تنصیب پر سبسڈی فراہم کی جارہی ہے۔ 2020-21 میں 687 لیزر لینڈ لیولرز سبسڈی پر کاشتکاروں کو فراہم کئے گئے جبکہ فی لیزر یونٹ 2 لاکھ 50 ہزار روپے سبسڈی فراہمی کی گئی ہے۔ 1210 ایکڑ بنجر زمین کو ڈرپ سسٹم کے ذریعے آباد کیا گیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کیلئے زیادہ سے زیادہ شجرکاری بھی کی جارہی ہے جبکہ محکمہ زراعت کے تحت شہری آبادیوں کے قریب ملتان، وہاڑی اور بہاولپور میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اربن فاریسٹ قائم کئے گئے ہیں۔محکمہ زراعت جنوبی پنجاب کاشتکاروں کی خوشحالی،مختلف فصلوں،پھلوں اور سبزیات کی پیداوار میں اضافہ اورفوڈ سیکیورٹی کو مستقل بنیاد فراہم کرنے کیلئے اقدامات جاری رکھے گا۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار