بچپن سے اپنے والد صاحب کو باہر سے ہونے والی میٹنگ میں انگریزی بولتے دیکھا۔ کلاس میں یا کہیں کوئی انگریزی جملہ بولتا تو سب اس کو ستائشی انداز میں دیکھا کرتے۔ اور انگریزی لب و لہجے کی تو کیا ہی بات تھی۔ جب میٹرک میں آئی، اس وقت تک یہ ذہن بن چکا تھا کہ انگریزی بولنا ایک بہت "کول" صلاحیت ہے، اور جس کو نہ آئے وہ مکمل "نالائق" ہے۔ میں خود بھی اس مکمل نالائق کی فہرست میں تھی کیونکہ جب والد صاحب کہ میٹنگ کے متن کو سمجھنے کی کوشش کرتی تو ایک لفظ نہ سمجھ آتا۔
جب میٹرک کی چھٹیاں ہوئیں تو یہ ٹھان لی کہ اس "فیز نالائقی" سے نکلنا ہے اور انگریزی سمجھنا سیکھنی ہے بالکل انگریزوں کی طرح، کم از کم اتنی کہ انگریزی متن اردو کانٹینٹ کی طرح سمجھ میں آنے لگے۔
اسکول میں رائٹنگ اسکلز اور english tenses پر کافی محنت کرواتے تھے تو لکھنا کافی حد تک آگیا تھا اور tenses کی بنیاد بھی اچھی بن گئی تھی۔ باقی اخبارات، انگریزی وڈیوز وغیرہ دیکھ کر کافی حد تک انگریزی سمجھ آنے لگی تھی۔ بولنا پھر بھی باقی تھا کیونکہ کسی زبان کو بولنا سیکھنے کے لیے اس زبان میں بات چیت ضروری ہے۔  اس کے لیے یوں کیا کہ کالج کے زمانے میں چند مختصر انگریزی جملے کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ بولنا شروع کر دیئے۔ کالج میں ایک اور لڑکی اچھی انگریزی بولنا جانتی تھی تو اس کے ساتھ اکثر انگریزی میں بات کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ جب کالج ختم ہوا تو اس وقت تک تقریبا تیس چالیس فیصد انگریزی بولنا آگئی تھی۔ یونی کے آغاز میں ذہنیت میں کچھ بدلاو آیا کہ "انگریزوں کی زبان اور غلامانہ ذہنیت کیوں اختیار کی جائے"۔ سو جتنی انگریزی میڈیکل کی پڑھائی اور اسائنمنٹ نے پڑھائی، اس تک محدود رہ گئی۔
یونی کے تیسرے سال میں "سافٹ وئر اپڈیٹ" اس وقت ہوا جب ہمیں میم سومیہ گل جیسی سینئر پروفیسر ملیں۔ میم سومیہ گل ہماری کیمسٹری کی پروفیسر اور ایچ ای سی کی تصدیق شدہ ریسرچ کورڈینیٹر ہیں۔ تقریبا نوے ریسرچ پیپر بھی انکے پروفیشنل کیرئر کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربے کا نچوڑ ہمیں بتایا کہ "انگریزی بے شک انگریزوں کی زبان ہے اور اردو زبان کی اپنی جگہ اہمیت ہے، مگر میڈیکل اور پروفیشنل زبان انگریزی ہی ہے جو پروفیشنل محفل میں آپ کا ایک متاثر کن امیج بناتی ہے۔ اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اچھے انگریزی کانٹینٹ اور بین القوامی پروفیشنل لوگوں تک رسائی ہو، تو انگریزی بولنا اور سمجھ میں آنا لازمی ہے۔" بروقت اس سافٹ وئیر اپڈیٹ کے بعد آنلائن یا آفلائن کولیگز سے پروفیشنل بات چیت سلیس انگریزی میں ہونے لگی اور اگر کبھی نہ آئی تو اردو میں بات کرلی۔
اصل مسئلے کا آغاز تب ہوا جب مریضوں سے بات چیت شروع ہوئی۔ پہلے انٹریکشن میں تو اپنی رو میں انگریزی میں ہی تعارف کروایا اور بات شروع کی تو رد عمل میں ایک قسم ان لوگوں کی تھی جو صاف کہتی تھی: "جی؟ آپ نے جو کہا وہ ہم تک نہ پہنچا"۔۔ دوسری وہ قسم تھی جو مرعوب ہو کر عالم شرمندگی میں بتاتی ہی نہ تھی کہ انہیں انگریزی سمجھ نہیں آرہی۔ جب پہلے بتائی گئی بات دوبارہ پوچھی جاتی تو پتہ چلتا کہ یہ والا انگریزی جملہ مریض کے اوپر سے گزر گیا ! تیسری قسم انگریزی بات چیت دیکھ کر انگریزی زدہ ہو جاتے اور انگریزی میں جواب دینے کی کوشش کرتے، تب لگتا کہ مجھے انگریزی دہرانے کی ضرورت ہے!
خیال رہے کہ انگریزی زبان آنا ایک اضافی اسکل ہے، جو آج کے دور میں سب کو آنی چاہیئے۔ لیکن اگر کسی کو نہیں آتی تو اسے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہی انگریزی نابلد شخص سے حقارت سے پیش آنا چاہیئے جیسا کہ آج کل ایک مخصوص پڑھا لکھا طبقہ بھی کررہا ہے۔ اسی طرح گفتگو کے آداب میں سے ہے، کہ سامنے والی کی سمجھ و فہم کے مطابق زبان و الفاظ کا چناو کیا جائے۔ اگر آپ کسی شخص کو مرعوب کرنے کے لیے، یا کسی ان پڑھ شخص کے سامنے انگریزی جھاڑ رہے ہیں تو اصل میں آپ اظہار بے وقوفی کر رہے ہیں۔
خیر صحیح وقت پر آنکھیں کھل گئیں اور کمیونکیشن کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب مریض سے رومن اردو میں ہی بات چیت ہوتی ہے۔ جہاں پڑھے لکھے مریض ہیں وہاں تھوڑی انگریزی میں بھی بات چیت ہوگئی۔ جب کوئی مشکل جملہ آئے تو مریض کی آسانی کے لیے رومن اردو میں بتا دیا۔  تو شروع کے کچھ عرصے Bi-Lingual (انگریزی اور رومن اردو، دو زبان میں) کمیونکیشن رہی۔
اس وقت تک میں نے اردو کی بورڈ کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ اردو تحریریں پڑھنے کا شوق تھا، تو فیس بک کمیونٹی پر لمبی اردو ٹائپ شدہ تحریریں تحاریر پڑھتے ہوئے سوچا کرتی تھی کہ اردو کی بورڈ سے کیسے کوئی اتنا لکھ سکتا ہے۔ پھر کچھ آنلائن ڈاکٹر کمیونٹیز میں شامل ہوئی، تو وہاں دیکھا کہ سینئر پاکستانی اور پاکستانی نژاد باہر کے ڈاکٹرز کی اکثریت اردو میں ہی تحریر لکھ کر ہی پوسٹ کرتی ہے۔ وہاں پہلی بار اندازہ ہوا کے دوسرے ممالک کی پاکستانی کمیونٹی اردو زبان اور لکھائی کو بہت پروموٹ کرتی ہے۔ انہیں ڈاکٹرز اور لکھاریوں کی تحریر پڑھتے پڑھتے ذہن بننے لگا کہ اردو میں ٹائپنگ اتنی بھی مشکل نہیں۔ چھوٹے اردو لفظ ٹائپ کرتے کرتے ٹائپنگ میں بھی روانی آگئی۔ یوں اب دو زبانیں بول سکتی ہوں، اور تین طرح لکھ سکتی ہوں الحمد اللہ۔
اب اپنے لیے اصول یہ بنا لیا ہے کہ اگر دوسری ایپ استعمال کرتے ہوئے اردو "کی بورڈ" لگا ہوا ہے، تو اسی "کی بورڈ" میں واٹس اپ اور فیس بک میسنجر استعمال کیا جائے گا، تاکہ میں اردو ٹائپنگ سیکھتی رہوں۔ سب سے ضروری مریض تک میری بات قابل فہم انداز میں پہنچانا ہے۔ جو مریض انگریزی یا اردو نہیں جانتا اس سے مکمل اردو یا مکمل انگریزی میں ہی بات چیت ہوتی ہے۔ جو مریض جانتے ہیں، ان سے بات چیت کرتے ہوئے کچھ ایسا Trilingual ملغوبہ بنتا ہے یعنی تین لکھنے کے انداز: رومن اردو، انگریزی، اور سادہ اردو۔
"جوڑوں کے درد کے مریض سے آنلائن گفتگو"
مریض: آج کام زیادہ ہونے کی وجہ سے جوڑوں میں درد دوبارہ ہورہا ہے۔
Me (انگریزی کی بورڈ): Noted, have u taken those medicine, the dr had prescribed you before for pain?
(اردو ترجمہ: کیا آپ نے درد کے لیے ڈاکٹر کی پہلے سے بتائی ہوئی دوا لی ہے، جو درد کی صورت میں لینی تھی؟)
Patient: g dawa li thi mgr drd kafi zyada he, frq nh para. Men pareshan hun ke agle ek mah ziada kam hi hoga, to men kese krunga wo itne drd men.
(اردو ترجمہ، مریض: جی، وہ دوائیں لی تھیں مگر درد کافی زیادہ ہے۔ فرق نہیں پڑا۔ میں پریشان ہوں کہ اگلے ایک ماہ کام زیادہ رہے گا تو میں کیسے کرونگا وہ اتنے درد میں۔)
میں (اردو کی بورڈ لگا ہوا ہے): اگر آگے کام زیادہ رہے گا تو پھر  آپ کو ہڈیوں کے ڈاکٹر سے فالو اپ معائنہ کروانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ آپکے آگے کے کام کے حساب سے دواوں میں مناسب تبدیلی کرسکیں، یا کوئی دوسرا طریقہ علاج اپنا سکیں
مریض: ٹھیک ہے، میں اگلے ہفتے کا وقت لے لیتا ہوں۔
Me (انگریزی کی بورڈ): thats good, other than medicine, use ice pack on pain sites for 15 mins, and do some physiotherapy exercises as advised but Dont overdo it.
(اردو ترجمہ: آپ کے جس جگہ درد ہے وہاں پندرہ منٹ کے لیے برف سے سکائی کیجئیے، اور اسکے ساتھ چنھ فزیو تھراپی کی ایکسرسائز جو آپکو سکھائی گئی ہیں انکو بھی کیجئیے، یاد رہے کہ بہت زیادہ نہیں کرنی ہیں۔)
Patient: in dono ko krne se kia faida hoga?
(ترجمہ: یہ چیزیں کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟
مریض دل میں سوچتے ہوئے: ڈاکٹر صاحبہ، کوئی ایک کی بورڈ استعمال کرلیں..!)
Me: is se soojan or sozish men kami ayegi or drd se aram ayega.
(ترجمہ: اس سے سوزش اور سوجن میں کمی آئے گی اور درد سے آرام ملے گا)
Patient: g smjh gya.
(جی سمجھ گیا)
________
  میرا تعارف: میں ماہین فیصل، جناح یونیورسٹی برائے خواتین، کراچی کے پانچ سالہ ڈاکٹریٹ آف فارمیسی ڈگری پروگرام میں چوتھے سال کی طالبہ ہوں۔ ایم بی بی ایس کا شوق نہیں تھا، کسی دوسری میڈیکل فیلڈ میں جانے کی خواہش تھی۔ کیرئر کا فیصلہ کرنے کے لیے معلومات اکٹھی کیں، اور پھر دوسرے لوگوں کو بھی اس معلومات کے ذریعے فیلڈ منتخب کرنے کے فیصلے میں مدد کی۔ فارم ڈی کے دوسرے سال میں تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا تھا، اب جب کبھی تعلیمی مصروفیات اجازت دیں تو میڈیکل کیرئر کاونسلنگ فراہم کرتی ہوں۔ پہلی انٹرن شپ چلڈرن ہاسپٹل برائے امراض خون، کراچی میں کی۔ اس وقت اپنی یونیورسٹی کے فارمیسی میگزین کے لیے کانٹینٹ رائٹر اور پروف ریڈر کے طور پر اپنی ٹیم ممبرز کے ساتھ کام کر رہی ہوں۔ اپنی فیلڈ اور معلومات کے دائرے میں رہتے ہوئے مریضوں کو بلا معاوضہ آنلائن میڈیکل معاونت بھی فراہم کرتی ہوں۔ rare بیماریوں کو پڑھنا سمجھنا میرا شوق ہے، اور پچھلے دو سال سے میں سیلیک کی بیماری کے مریضوں کو میڈیکل معاونت فراہم کر رہی ہوں۔ چند دوسری بیماریوں مثلا پولی سسٹک اووری، آنتوں کی بیماریوں، جوڑوں کی بیماریوں اور خون کی بیماریوں کے مریض سے بھی میں منسلک ہوں۔ مریضوں سے بات چیت کرتے ہوئے جن صحت کے مسائل کا مشاہدہ ہوا، ان سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بذریعہ تحاریر عوام میں آگاہی پھیلانے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہوں۔ سوشل کمیونیٹیز میں بھی عوام کے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کی کوشش ہوتی ہے۔
بیماری سے متعلق سوالات کے لیے اس ایمیل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Medquery.Epharmacistmaheen@gmail.com
ایم بی بی ایس کے علاوہ میڈیکل کیرئر سے متعلق سوالات کے لیے اس ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
medcareer.Epharmacistmaheen@gmail.com
میڈیکل کانٹنٹ پروف ریڈنگ اور پلیجریزم ہٹانے کے لیے اس ایمیل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Medcontentwork.Epharmacistmaheen@gmail.com

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار