ایشیا اردو


تحریر:مسیح اللہ جام پوری


پرندوں کی چہکار مدہم پڑ چکی تھی سب پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں جا چکے تھے، بلا کی سردی تھی، ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں جم رہی تھیں، چوپال میں چند چار پائیاں اور ایک آدھا موڑھے پڑے تھے، فرش پر چٹائی بچھی ہوئی تھی، کبھی کبھار کتوں کے بھونکنے کی آواز فضا میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی، حقے کے سوٹے لگ رہے تھے،گرم چادریں پڑی تھیں چوپال علاقہ کے نمبردار کی تھی جو دن رات آباد رہتی تھی، مسافروں کو وقت پر روٹی پانی مل جاتا تھا، کبھی کبھار چائے بھی آ جاتی تھی۔ چوپال نمبردار کے ڈیرے پر تھی جس میں کمروں کے آگے برآمدہ تھا، وسیع برآمدے کے آگے قد آور درخت تھے جہاں سورج کی پہلی کرنیں پڑنے سے پہلے مختلف اقسام کے پرندے آ جاتے، سب سے پہلے کوؤں کا یہاں آنا ہوتا تھا، چڑیاں، مینا بھی آ جاتیں، اس روز صبح سے ہی کالے بادل نہیں معلوم کہاں سے سر اٹھا کر چلے آئے، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے گرج چمک شروع ہو گئی تھی، پرندوں کی چہکار گرج چمک کی نذر ہوئی کوؤں نے چپ سادھ لی تھی، کچھ پرندے اڑدئیے، گھونسلوں کی راہ لی، مسافرکمرہ میں دبک کر بیٹھ گئے، ماحول میں افراتفری پیدا ہو گئی، ہلکی بارش نے زور پکڑا، اسی اثنا میں ایک ڈھلتی عمر کا شخص در آیااور نہ سلام نہ دعا آتے ہی بولا میں مرگیا ہوں مجھے دفنا دو، وہاں موجود لوگوں نے گردنیں گھما کر اسے ایک بھر پور نظر سے دیکھا اور چپ رہے، وہ برابر یہی کہتا رہا میری سن نہیں رہے ہیں مر گیاں ہوں مجھے دفنا دو۔ آسمان سے چھن چھن کر آنے والے کالے بادلوں سے مدہم اجالا کا راستہ بھی بند ہو گیا تھا جس کی وجہ سے دن کو بھی رات کا گماں ہونے لگا، اسی اثنا میں ایک سفید الو کی چنگاڑ سنائی دی، وہ مردم براز شخص بولا اس الو کی چنگاڑ آپ لوگوں کو سنائی نہیں دے رہی، وہ گواہی دے رہا ہے کہ بخشو مر گیا ہے۔ وقفے سے الو نے ایک بے گھر چڑیا کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا جو بارش میں بیٹھی تھی، چڑیا کی چیں چیں دم توڑ گئی اور فضا میں خاموشی کا سکوت طاری ہو گیا، ایک اکتائے ہوئے اجنبی نے بلا اختیار چیختے ہوئے بولا اگر تم مر گئے ہو تو بول کیوں رہے ہو، مرے ہوئے بھی کبھی بولتے ہیں، لالو نے نہیں معلوم کون تھا کہاں سے آیا تھا بولا زندہ لوگ تو آپ ہو جو اپنی خواہش لے کر یہاں آتے ہو، زندگی تو خواہشات کے مجموعے کا نام ہے میری کوئی خواہش نہیں نہ کوئی آروز، سمجھو میں مر گیا ہوں۔ دوسری طرف سے آواز آئی جو تم بول رہے ہو تو اب زندہ ہو زندگی کی خواہش تو تمہیں دفنانے کی خواہش لے کر یہاں سے آئی ہے تو ثابت ہوا تمہاری خواہش زندہ ہے تو تم بھی زندہ ہو۔ 
انہی کا مکالمہ جاری تھا کہ اسی دوران تین چار افراد ہانپتے کانپتے اندر داخل ہوئے اور چاروں ایک ساتھ بولے وہ کہاں ہے جو مرا ہوا ہے، ایک بزرگ بولا کون مرا ہوا ہے، ان میں سے ایک شخص نے قدرے تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا کہ جو کہتا ہے میں مر گیا ہوں مجھے دفناؤ، وہ وہاں بھی یہی کہتا ہوا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا، چاروں سمتوں اور اطراف میں اس کی تلاش میں شمشان گھاٹ کے لوگ اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے وہ مرا ہوا شخص دم سادھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر چپ کر کے بیٹھ گیا، پھر انہوں نے کہا کہ بولتے کیوں نہیں وہ کہاں ہے، لوگ اس کی انتظار میں دو روز سے شمشان گھاٹ پر کھڑے ہیں، چِتا جل رہی ہے وہ مرا ہوا شخص گم ہوا سارے لوگ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے دیکھنے لگے اور نظروں سے استفسار کر رہے تھے یہ کیا ماجرا ہے، سب لوگ چپ۔شدید سردی میں سروں پر کمبل چادریں ڈالے خاموشی میں گم تھے، اسی دوران تانگے کے چلنے کی آواز سنائی دی، وہ آواز قریب سے دور دور نکلتی چلی گئی، وہ بولا یہ تانگہ ہر روز اسی طرح گزرتا ہے نہیں معلوم کون ہے کس کو لئے پھرتا ہے، سب نے ان کی کہی ان سنی کر دی، پھر وہی شخص بولے بتاتے کیوں نہیں، وہ مرا ہوا شخص کہاں ہے اس کا کام ہی یہی ہے، اس کا نام جگ دیش۔وہ جہاں جاتا ہے اپنی نئی کہانی سناتا ہے پھر خاموشی سے کھسک جاتا ہے، ٹمٹاتی، جلتی، بجھتی، مرتی روشنی میں سب نے اس شخص کو دیکھا نظریں گھمائیں لیکن وہ نہیں ملا۔ سب اٹھ کر بیٹھ گئے، ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے پوچھ رہے ہوں وہ کہاں گیا ہے، دروازے کی دیوار سے پرے لوگوں نے ایک چیخ سنی اور ایک آواز آئی وہ گرا اور مر گیا۔ 
چاروں بندے اُٹھے دروازہ کھولا، ٹھنڈی ہوا کے خنک جھونکے نے ان کے چہروں کو لپیٹ میں لے لیا، سب نے کانپتے ہاتھوں سے اسے دیکھا کہ وہ زمین پر گرا پڑا ہے اور انہوں نے اس کے چہرے سے چادر ہٹائی تو پوچھا تو کیوں اچانک آیا تھا، شمشان گھاٹ تیار ہے۔ اس میں آگ بھڑکائی جا چکی ہے اس نے پوچھا شمشان گھاٹ میں کیوں میرا انتظار کر رہے ہیں، وہ بولے تم مر گئے ہو، تمہاری آخری رسوم ادا کرنا ہیں، مرے ہوئے شخص نے اطمینان کا سانس لیا، درست ہے میں مر گیا ہوں لیکن میں مرنے کے بعد زندگی کو نمو دینا چاہتا ہوں اس لئے مسلمانوں کے جمگھٹے میں آن پہنچا تاکہ وہ مجھے دفنا دیں اور کیڑے مکوڑے پیدا ہوں مجھے کھا جائیں، میرے مرنے کے بعد میں ہزاروں نئی زندگیوں کو جنم دوں گا یہی میری آرزو ہے اور خواہش ہے اس لئے میں آ پہنچا ہوں، تم لوگ مجھے شمشان گھاٹ لے جا کر جلا دو گے میں جل جاؤں گا، میرے جسم جان بدن سے ٹوٹی نئی زندگی جنم نہیں لے سکے گی۔ آنے والوں نے مکالمہ کیا اور تمہارے ہمسائے جو آتش پرست ہیں کیا وہ بھی آگ سے نفرت کرتے ہیں، اس نے جواب دیا میں نفرت کی کب بات کر رہا ہوں میں تو زندگی کو بخشنے کی بات کر رہا ہوں، زندگی کو فروغ دینے کیلئے حدت ضروری ہے، وہ آگ ہے یہ زندگی کا لازمہ ہے لیکن اس کا استعمال اپنے نتائج دیتا ہے میں اس نتائج سے اتفاق نہیں کرتا۔ 
دونوں اندھیری رات میں چوپال سے باہر گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک کتوں کا ایک غول ادھر آ نکلا اور ان پر بھونکنے لگا، کتے ہزار جسموں کی بو کو سنبھال رکھتے ہیں، یہ اجنبی لوگ تھے، کتے انہیں نہیں پہچان سکے اس لئے ان پر حملہ آور ہو گئے، چوپال سے باہر شور اور کتوں کے حملہ آوار ہونے کے وقت نکلنے والے اشخاص آواز پر چونکے اور چوپال سے باہر نکل آئے اور کتوں کو بھگا دیا، کتے ہانپتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور انہوں نے ان سے پوچھا کہ تمہارے درمیان مکالمہ کیا ہوا تم کون لوگ ہو، کہاں سے آئے ہو۔ مرے ہوئے میں سے ایک شخص بولا ہم نور پور بکھا کے رہائشی ہیں موقع پر جمع لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا وہاں ہندو رہتے ہیں، ان کی اپنی رسم و رواج ہیں، تم لوگ اندھیری رات کو ادھر کیوں آ نکلے ان میں سے ایک بزرگ شخص بولا۔ یہ لالو ہمارے گاؤں کا ہے یہ پچھلے ہفتہ سے لا پتہ ہے اور کہتا ہے میں مر گیا ہوں مجھے دفنایا جائے لیکن یہ ہندو ہے، ہم اسے اپنی رسم کے مطابق آگ لگانی ہے اس لئے اسے ساتھ لینے آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ تو زندہ ہے وہ بولاہوگا زندہ، لیکن اس نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے یہ سچ بول رہا ہے ہم سب گاؤں والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں یہ مر گیا ہے اسے شمشان گھاٹ لے جا کر آگ لگائیں گے اس کی مکتی ہو جائے گی۔ مرے ہوئے شخص نے چیخ کر بوالا میں نے شمشان گھاٹ نہیں جانا، انہوں نے اسے پکڑا اور اس کو باندھ دیا، موقع پر موجود چوپال کے لوگوں نے اس کو آزاد کرا دیا اور کہا یہ دفن ہونا چاہتا ہے، آپ مسلمان ہو کیا اپنے قبرستان میں ہندو کو دفنانے دو گے، سب خاموش ہو گئے، فیصلہ یہ ہوا صبح ہوتے ہی وہ نمبردار کے پاس جائیں گے وہاں جو فیصلہ ہوا اس پر سب عمل کریں گے، وہ بھی اس بات پر خاموش ہو گئے۔ 
صبح جب ہوئی تو سب لوگ نمبردار کے ڈیرے پر جمع ہو گئے لیکن نور پور بکھا کے گاؤں سے کوئی نہیں آیا، ایک بزرگ پہنچا اور کہا اس مرے ہوئے شخص کا یہ کہنا سچ ہے وہ زندگی کو نمو دینا چاہتا ہے، اس کے دفن ہونے سے کیڑے مکوڑے پیدا ہوں گے جل مرنے سے اس کی راکھ زمین میں ڈالنے سے دریا میں بہانے سے بھی زندگی فروغ پائے گی، دریا کا پانی کھیتوں میں لگے تو زمین طاقت ور ہو گی اور زیادہ فصل دے گی وہ بھی زندگی کے فروغ کا باعث بنے گی اس لئے سب سچے ہیں۔ اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں، سب زندگی کو بڑھانا چاہتے ہیں زندہ رہنا چاہتے ہیں  مرے ہوئے شخص کا بعد میں پتہ چلا وہ گم ہو گیا، بعد مٰں عرصہ بعد وہ شخص ملا اور دونوں فرقوں مٰں اس کی حوالگی پر لڑائی ہوئی دونوں زندگی کا فروغ چاہتے تھے لیکن عملی طور پر دونوں لڑائی میں ہار بیٹھے، کسی کے پاس کچھ نہیں آیا۔ نمبردار بولا تو یہ سچ کی تلاش میں گھومتی کہانی ہے اس کا کوئی اختتام کبھی نہیں ہوگا، شروع دن سے لوگ بنام وطن، بنام نظریہ، بنام سچ مارے جاتے رہے ہیں، جھوٹ پھیلتا رہا لوگ مر تے رہے یہ نئی بات نہیں انسان کے زمین پر اتارے جانے کے بعد یہ سلسلہ چلا، صدیوں سے اسی چلن کی کہانی کا تسلسل ہے اور رہتی دنیا تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ 

تمام کی رائے اپنی ہے ادارہ تحریرکا متفق ہونا لازمی نہیں 
 

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار