ایشیا اردو

تحریر: خضرنواز
ڈیرہ غازیخان کے ڈاکخانوں کی مخدوش حالات زار۔۔!موبائل فون کی ایجاد سے پہلے عام طور پر پیغام رسانی کے لیے محکمہ ڈاک سے جاری کردہ پوسٹ کارڈ اور انتر دیشی لیٹرس کا استعمال ہوتا تھا۔
بڑی محبتوں سے خطوط لکھے جاتے اسے سجایا جاتا سنوارا جاتا خط لکھ کر لفافے اور خط کے کاغذ پر اکثر کوئی اچھی سی خوشبو(پرفیوم) بھی لگا دی جاتی اپنے پیاروں کے جوابی خطوط کےانتظار میں 10 / 15 دن صبر کرنا بڑا کٹھن ہوتا، سخت بے چینی و بے قراری بھری کیفیت رہتی راستے میں اتفاقاً نظر آجانے والے ڈاکیہ کو روک روک کر پوچھا جاتا کہ کوئی خط ہمارے نام تو نہیں آیا نا؟...یقیناً بڑا میٹھا اور سہانا دور تھا۔
 ملک بھر میں پاکستان پوسٹ کے 11ہزار 499 ڈاک خانے ہیں جس میں پاکستان پوسٹ کی 4ہزار 153 ڈپارٹمنٹل عمارتیں ہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان پوسٹ کی عمارتوں کے مرمتی کام نہیں کیے جاسکے جسکے باعث متعدد ڈاک خانوں کی حالت خراب ہو چکی ہے۔ پاکستان پوسٹ کو درپیش خسارے کے باعث سابق وزیر اعظم پاکستان نے فروری 2016 میں اصلاحی ایجنڈے کی منظوری دی تھی جس کے تحت پاکستان پوسٹ کی ری برانڈنگ، پوسٹل لاجسٹک کمپنی اور موبائل منی سالوشن کا قیام عمل میں لایا جانا تھا تاکہ محکمے کے ریونیو میں اضافہ اور خسارے پر قابو پایا جاسکے تاہم ابھی تک اصلاحات متعارف نہیں کرائی جاسکیں، پاکستان پوسٹ کا خسارہ 10ارب سے بھی تجاوز کر گیاہے۔ واضح رہے کہ پاکستان پوسٹ کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، پاکستان پوسٹ کے اخراجات ریونیو کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں جبکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ڈاک خانوں کی حالت بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔
ڈیرہ غازیخان کے ڈاک خانہ کا عملہ انتہائی سست اور نان کوآپریٹو ہے عوام بجلی کے بل جمع کروانے کے لیے قطاروں میں ذلیل ہو رہی ہوتی ہے اور یہ لوگ آرام سے اندر بیھٹے جواب دے رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس لائٹ کا انتظام نہیں ہے جبکہ ڈیرہ غازیخان کے بلنگ برانچ میں آنلائن بل جمع کرنے کا ابھی تک انتظام نہیں ہے یہ ابھی پرانے روائیتی انداز سے بلز کلکٹ کرتے ہیں یہاں پر بیشتر اوقات اسلحہ رینو ٹکٹس، ڈرائیونگ لائسنس ٹکٹس نایاب ہوتی ہیں جس سے صارفین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
ڈیرہ غازیخان میں ڈاک کی ترسیل کا نظام بہت ناقص ہے جس کے باعث لیگل اور عدالتی نوٹسز مقررہ وقت پر وصول نہیں کراۓ جاتے طالبِ علموں کو محکمہ تعلیم اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی کتابیں و رولنمبر سلپس و دیگر ڈاک کٹی پھٹی وصول ہوتی ہیں اس چیز کا اندازہ آپ شہر میں لگے ڈاک کے ڈبوں سے بھی لگا سکتے ہیں جن پر لگے تالوں سے پتہ لگتا ہے کے یہ کئی سالوں سے کھلے ہی نہیں، میری حکومت وقت سے اپیل ہے یا تو اس پر توجہ دیکر اسے ٹھیک کریں کا اسے ٹھیکہ پر پرائیویٹ کمپنیوں جیسے TCS وغیرہ ہیں اُنکے حوالے کردیں یا اس ادارے کو پرائیویٹ کردیں یا جی ٹی ایس بس سروس کی طرح مکمل ختم کردیں۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار