ایشیا اردو

تحریر: عامر سلطان

ہر سال چودہ فروری کو” ویلنٹائن ڈے” بڑے جوش وخروش سےمنایا جاتا ہے۔نہ صرف مغربی ممالک بلکہ مسلم ممالک اور خاص طور پر پاکستان میں بھی اس دن کا غلبہ بہت حد تک پھیل چکا ہے ۔ اس دن نوعمر لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پھول ،کاردڈز،اور محبت کے تحفے بھیجتے ہیں ۔اس دن کو دنیا میں عام طور پر پریمیوں کا دن تصور کیا جاتا ہے ۔ اگر اس دن کو منانے کا مقصد دیکھا جائے تو "ویلٹائن” ایک شخص کا نام تھا جو "نصرانی پادری” تھا۔ اور اس دن کو اسی ویلٹائن کے نام سے منسوب کر کے پادریوں میں منایا جاتا ہے۔اس کے علاؤہ کیتھولک چرچ کی تاریخ میں ویلٹائن نامی تین شخص گزرے ہیں ۔ اور ان تینوں نے ہی اپنے اپنے نظریات اور اصولوں کی خاطر اپنی جان دے دی۔ویلٹاین ڈے کے حوالے سے ایک داستان یہ بھی ہے کہ جب رومی بادشاہ کلاودیوس کو تیسری صدی میں جنگ تیار کرنے کے لیے مشکل پیش آئی تو بادشاہ نے اس کی وجہ تلاش کی تو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور بیوی بچوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لے رہے تو بادشاہ نے کسی بھی مرد کو شادی نہ کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ لیکن ” ویلٹائن” پادری نے اس حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود بھی شادی کر لی اور بہت سے اور لوگوں کی بھی شادیاں کروا دیں۔ اس غلطی پر بادشاہ نے ” ویلٹائن” کو گرفتار کر لیا اور چودہ فروری کو اسے سزائے موت دے دی۔اس کے علاؤہ ویلٹائن کی موت کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس نے جیل میں قیام کے دوران مسیحوں کو رومیوں کی جیل سے رہائی میں مدد فراہم کی تھی ۔جہاں ان مسیحوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اور اس حوالے سے تیسری داستان یہ ہے کہ پادری” ویلٹائن” کو قید میں جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی تھی۔جو قید میں اس سے ملنے آتی تھی اس نے اپنی پھانسی والے دن جیلر کی بیٹی کو خط لکھا تھا کہ ” تمہارا ویلنٹائن” یہ واقعہ 14 فروری 270ََْْْْٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔعیسوی میں ہوا ۔اور اب ہر سال پادری "ویلٹائن” کی اس یاد کو تازہ کرنے کے لیے یہ دن مناتے ہیں ۔ ویلٹائن ڈے کے حوالے سے لکھی جانے والی مختلف داستانوں کے پیشِ نظر ” ویلٹائن ڈے” کی حقیقت آج تک پراسرار سمجھی جاتی ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کا اس دن سے کوئی تعلق ہے۔ کیونکہ ہر سال لاکھوں مسلمان اور ہمارے پاکستان کے نوجوان اس دن کو مناتے ہیں۔ اور اس دن کو محبت کا دن سمجھ کر لڑکیوں سے پھول،کارڑذ اور تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ اور ان سے شادی کے وعدے بھی کر گزرتے ہیں ۔ بہت سی لڑکیاں بھی اسی سفر کی راہی ہیں جو کہ ویلٹائن ڈے پہ بن سنور کر گھروں سے نکل آتی ہیں کہ کہیں آج کوئی لڑکا اظہارِ محبت کی رائے نہ رکھتا ہو یا پھر خود لڑکوں سے محبت کے اظہار کے لیے چل پڑتی ہیں ۔ اسلام کی مسلمان کی بیٹی ہو کر ایک سچے دین کی شہزادی ہو کر جب چادر اتار کر بازار میں کشکول لیے ایک لڑکی محبت کی بھیک مانگتی ہے تو کتنی عزتوں کا جنازہ نکلتا ہو گا کتنی غلیظ آنکھیں اس لڑکی پہ پڑتی ہوں گی۔ جو کہ حیا کا پیکر بنا کر تخلیق کی گئی ہے۔ ویلٹائن ڈے پہ صرف اظہارِ محبت اور تحائف کا تبادلہ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے نوجوان اس دن کو حقیقت مان کر جس کا اسلام میں کوئی وجود ہی نہیں ہے گھروں سے بھاگ نکلتے ہیں اپنی محبتوں کو امر کرنے کے لیے اور ایک دوسرے کو اس دن کا اچھا انعام دینے کے لیے،ویلٹائن ڈے پہ کتنی ہی مائیں اور کتنے ہی باپ سہمے ہوتے ہیں کہ ان کی عزتیں محفوظ رہیں۔ ان کے اندر اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ویلٹائن ڈے کی گرم ہوا جو ہر طرف سے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے کہیں ان کے گھروں کو جلا کر راکھ نہ کر دے۔ اس کے علاؤہ نوجوان اس دن اپنے محبوب کو خاص تحفہ دینے کے لیے گھر کا ساز وسامان اور ماں باپ کی جمع پونجی بھی چوری کر کے بیچ ڈالتے ہیں ۔ مسلمانوں خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کا بہت رحجان ہو گیا ہے ۔ ویلٹائن ڈے پہ بازاروں میں پھولوں سے دکانیں بھر جاتی ہیں۔ کالج یونیورسٹیوں میں نوجوان آج کے دن بےتاب ہوتے ہیں اور اداروں میں ویلٹائن ڈے پہ بہت سے افسوس ناک واقعات ہو گزرتے ہیں۔اس دن نوجوانوں کے دل میں یہ تجسس ہوتا ہے کہ شاید کوئی آج مجھ سے اظہارِ محبت کر دے کیونکہ ہم بد نصیب قوم اسے اپنے لیے ضروری اور اہم سمجھ بیٹھے ہیں۔ جبکہ یہ پادریوں کی ایک روایت ہے اس کا ہمارے مذہب ہماری روایات سے کوئی واسطہ نہیں ہم پھر بھی اس دن کے لیے خود کو خوار کرتے ہیں خود کو اس دن کے لیے ستاتے ہیں اس دن کے خواب دیکھتے ہیں ۔اور افسوس کے ساتھ کہ ویلٹائن ڈے پہ محبت میں جسموں کے نام پہ بکنے والے پریمی جوڑے حیا کے دامن پھاڑ کر عزتوں کو ہمیشہ کے لیے داغدار کر دیتے ہیں ۔ کیا یہ انسانیت اور مسلمانیت ہے؟ کیا محبت اور پیار کے مقدس جذبات ایک غیر مسلموں کی روایت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہو۔مسلمان مرد اور عورت اپنے دین کی حفاظت کرنے کے لیے ہیں نہ کہ دوسروں کے نقشِ قدم پہ چل کر اپنے دین کی توہین کرنے کے لیے ہمارا دین اسلام جو مکمل واضح اور شفاف دین ہے۔ جس نے عورتوں اور مردوں کے لیے حدود مقرر کی ہیں اور انہیں پاکیزگی کا درس دیا ہے یہ دین اسلام اس قابل ہے کہ اس پہ لوگ چلیں اور اس کی ترویج کریں نہ کہ غیر مسلموں کی روایات اس قابل ہیں کہ ان پہ چلا جائے اور قوم کو اس کے پیچھے لگایا جائے۔پیاری اسلام کی بیٹیوں تم تو شہزادیاں ہو جو حیا کی چادر میں لپٹ کر ہی خوبصورت اور پیاری لگتی ہو اور اپنی حدود میں ہی امن پا سکتی ہو جو حددو اسلام نے تمہارے لیے مقرر کر رکھی ہیں۔اور اسلام کے شہزادوں کو بھی نہیں ججتا کہ وہ اپنی حدود پھلانگ کر اپنے مقام سے گِر جائیں ۔ اپنے آپ کو اس دن کی غلاظت سے محفوظ رکھو اس دن سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے اگر ہم مسلمان ہو کر اس دن کو منائیں گے توہم اپنے اللّٰہ کو کیا منہ دکھائیں گے کیسے نظریں ملائیں گےہم رب سے جس دین کی لاج رکھنی تھی ہم اسے پسِ پشت ڈال کر دوسروں کے پیچھے چل پڑے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ غیر مسلموں نے ہم مسلمانوں کا کوئی تہوار ایسے منایا ہو یا ہمارے کسی اسلامی طرز پہ چلے ہوں؟ کبھی نہیں کبھی کوئی غیر مسلم اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹ کر ہمارے قدم چومنے نہیں آیا اور پھر ویلٹائن بھی تو اپنے اصولوں اور فیصلوں کی بدولت موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔جب غیر مسلم کسی طرح سے ہماری پیروی نہیں کرتے تو ہم مسلم ان کو کیوں پروان چڑھاتے ہیں ۔ ہماری نوجوان نسل ویلٹائن ڈے پہ پادریوں کے اس تہوار کو منا کر پادریوں کے کندھے کو مضبوط کرتی ہے اور اسلام کے منہ پہ نعوذباللہ دھبا لگا دیتی ہے ۔جو کہ سراسر شرم اور بےحد افسوس کی بات ہے ۔ ہمیں اپنی پاک دامنی کو قائم رکھنا ہے کیونکہ ہم اسلام کے ماننے والے اور پاک سر زمین کے رہنے والے ہیں ۔ہمیں ” ویلنٹائن ڈے” کی ہر طرح سے مذمت کرنی ہے جو ہمارے اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن ہم اس سے اُلٹ کر رہے ہیں۔ اب وقت ہے اٹھنے کا اور اپنے وطن کے ساتھ ساتھ اپنے ذہنوں سے بھی ویلنٹائن ڈے کی غلاظت اکھاڑ پھینکنے اب وقت ہے کہ غفلت کے پر کاٹ کر عقل کے پردوں کو ہوا لگوائی جائے اور اس دن کی نسیں دبائی جائیں۔ کیونکہ یہ دن اور اس دن اُٹھنے والے سنگین اقدامات ہماری نوجوان نسل کو تباہیوں میں دھکیل رہے ہیں ۔ بہت سی عزتیں اس دن کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں میں دوستیاں نہیں ہوتیں اور محبت تو مقدس رشتہ ہے اسے گلی کوچوں میں رسوا نہ کرو محبت کے پھولوں کو حیا کے دامن میں بکھیرنا سیکھیو ۔ محبت اور دوستی کے نام پر ویلٹائن ڈے منانے کی روایت کے بت توڑنے کے لیے پر عزم ہو جاؤ اٹھو اے نوجوانوں اب جاگنے کا وقت ہے کب تک اپنے معیار سے گِر کر خود کو خود رسوا کرتے رہو گے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ ھو علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
٫٫ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے،، ( سنن ابی داؤد)
ہمیں اپنی پاک دامنی کو قائم رکھنا ہے کیونکہ ہم اسلام کے ماننے والے اور پاک سر زمین کے رہنے والے ہیں۔ ہم اس دن کو منا کر مسلمان کہلائے جانے کے قابل نہیں رہ سکتے کیونکہ ہم اپنے نبی صلی اللّٰہ ھو علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق دوسری اقوام کی پیروی کر بیٹھیں گے اور انہی میں سے ہو جائیں گے ۔ کیا کبھی مسلمان چاہتا ہے کہ وہ ہو مسلمان لیکن اللّٰہ کے ہاں اس کا درجہ غیر مسلم ہو جائے اپنی بے حیائی کی وجہ سے نہیں کبھی نہیں کوئی مسلمان بھی مسلمان ہو کر غیر مسلم کہلوانا پسند نہیں کرتا جبکہ حقیقت میں یہ دن منا کر ہم خود کو غیر مسلموں کے دائرے میں رکھ کر اپنے غیر مسلم ہونے کا ثبوت پیش کرنے لگتے ہیں۔اس کے علاؤہ قران پاک میں جگہ جگہ مسلمانوں کو حیا پاکدامنی اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے ارشادِ باری ہے!
"آپ مسلمانوں سے کہ دیجیے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔بے شک اللّٰہ اس سے خوب باخبر ہے جو لوگ کیا کرتے ہیں۔” ( سورہ النور رکوع نمبر چار)
اس کے بعد عورتوں سے حکم فرمایا کہ
"اور مسلمان عورتوں سے فرم دیجیے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ مجبوری کے ساتھ خود کھل جائے۔اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پہ ڈالے رہا کریں۔ اور اپنے حسن وجمال کو ( کسی پہ) ظاہر نہ ہونے دیا کریں۔ ( سوائے ان کے جو شرعاً محرم ہیں)اور مسلمانو! ( جب تم سے ان اعمال میں کوتاہی ہو)تو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔( سورہ النور آیت نمبر اکتیس)
یہ مقام ہے ایک مسلمان مرد اور عورت کا جو قرآن نے واضح کیا ہے ۔ یہ وہ حیا کے دائرے ہیں جن کو مسلمان مرد اور عورت پار نہیں کر سکتے۔ لیکن ” ویلٹائن ڈے ” پہ ہمارے ہاں صرف ان اسلامی دائروں سے باہر نہیں نکلا جاتا بلکہ شرم و حیا کی حد کر دی جاتی ہے۔ آنکھوں، کانوں کا زنا تو عام طور پر چلتا رہتا ہے لڑکے لڑکیوں میں لیکن نعوذ باللہ ویلٹائن ڈے پہ ساری شرعی حدود توڑ کر مسلمان لڑکے لڑکیاں بھی زنا کی آخری حد کو چھو لیتے ہیں ۔ جو نہ صرف اپنی بلکہ اسلام کی بربادی کا بھی ذریعہ ہے۔
حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ ھو علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بیشک ہر دین کی کوئی خاص خصلت( فطرت، پہچان) ہوتی ہے۔ اور اسلام کی وہ خاص خصلت ” حیا” ہے۔
ہم بے حیا ہو کر اسلام اور مسلمانیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اسلام کی پہچان حیا ہے پاکیزگی ہے۔ مسلمان بیٹیوں اور بیٹوں کو چاہیے اپنے آپ کو محبت کے نام پہ بےعزت نہ کریں اپنے ضمیر کا سودا کر کے خوشی کے چند پھول قبول نہ کریں ۔ کیونکہ اس میں خسارہ ہی خسارہ ہے ۔اسلام کی روشنی میں فقہاءِ اکرام فرماتے ہیں۔ کہ ” ویلٹائن ڈے کے حوالے سے مسلمان مرد اور عورت کے درمیان جو تعلق قائم ہوتے ہے اور اس تعلق کی بنیاد پہ جو تحائف کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ یہ رشوت میں داخل ہو جاتا ہے اس لیے اس دن غیر مرد اور عورت سے گفٹ لینا اور دینا دونوں ہی ناجائز اور حرام ہے۔ اگر کسی نے تحائف لیے ہوں تو اس پہ توبہ کے ساتھ ساتھ وہ تحائف بھی واپس کرنا لازم ہیں ۔بحر الرائق میں بھی اس بات کی تصدیق موجود ہے۔اس لیے ” ویلٹائن ڈے ” منانا ہر لحاظ سے شرعی ممنوع اور گناہ کبیرہ ہے ۔ جس سے بچنا ہم پہ واجب ہے ۔
قرآن میں سورہ النور میں ایک جگہ اور ارشاد ہے کہ
٫٫ یاد رکھو جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے،،
اس آیت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو غیر مسلم اور کافر تو چاہتے ہی ہیں کہ مسلمانوں کو ان کی ڈگر سے بہکا کر اپنے راستے پہ چلا لیں اپنی روایت کا سبق پڑھا دیں اور اس سوچ میں افسوس کے ساتھ غیر مسلم چودہ فروری کو بہت حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ جب وہ ایمان والوں میں مسلمانوں میں بے حیائی پھیلاتے ہیں لیکن اس کے علاؤہ اس بے حیائی کے پھیلنے میں خود ایمان والوں کا اپنا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب چودہ فروری کو ” ویلٹائن ڈے” منانے کے لیے مسلمان لڑکے لڑکیوں کی آنکھیں ، ہاتھ ، کان اور جسم کا ہر عضا زنا اور بے حیائی کے چُنگل میں پھنس جاتا ہے۔جب اس دن بہت سی چادریں سر سے اتر جاتی ہیں تو ایمان کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں تب خود مسلمان ہی مسلمانیت کو تباہ کرنے پہ لگ جاتا ہے ۔ جبکہ عورت کے لیے پردے کا حکم ہے اور مرد کے لیے بھی حدود رکھی گئی ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں چاہیے کہ اس دن کی فضول ترویج کو اپنے دیس سے ختم کریں اور اسے اسلام کے منافی سمجھ کر ممنوع قرار دیں ۔ہمیں ” ویلنٹائن ڈے” کی مسلمانوں میں مذمت کرنی ہے کسی کی بیٹی کی چادر اتارنی نہیں بلکہ اس کے سر پہ حیا کی چادر اوڑھانی ہے جو کہ مرد کی اصل شان ہے۔ اور اسی طرح عورت کو بھی اپنے والدین کی عزت کو پسپا نہیں کرنا بلکہ عزتوں کی لاج رکھتے ہوئے اپنی حفاظت کرنی ہے۔کیونکہ حیا ایمان اور اسلام کی خصلت ہے۔ ” ویلٹائن ڈے ” جو کہ بےحیائی کا دن ہے یہ ہمارے ایمانوں کے لیے خطرہ اور زہر ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک قہر ہے ۔ہمیں اس سے خود کو بچانا ہے ۔یہ مشکل نہیں ہے بس مسلمان مرد اور عورت کو اٹھنا ہے ہمت کرنی ہے محبت کے نام پہ خود کو رسوا نہیں کرنا محبت کا اظہار ویلنٹائن ڈے نہیں ہے محبت کا خوبصورت اظہار رشتہ ازدواج ہے۔ اپنے آپ کو اس دن کے سراب سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اگر اب ہم بھی اس میں شامل رہے تو ہم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیسے ہوں گے ۔ ہم اپنے اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ ھو علیہ وآلہ وسلم کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا ۔ اپنی روحوں کو جھنجھوڑنا ہو گا کہ یہ دن غلاظت ہے بلکل جس میں گِر کر ہم اپنے دامن گندے کر رہے ہیں۔اٹھو کہ اسلام کی شمعیں پکڑیں اور پادریوں کے اس دن کی ترویج اپنے مسلمانوں سے ختم کریں آئیں کہ خود سے شروع کرتے ہیں خود سے عہد کرتے ہیں کہ اس دن کی غلاظت اور بے حیائی سے ہمیشہ خود کو دور رکھیں گے ۔ اپنے ایمان کی حفاظت کریں گے اور اسلام کی لاج رکھتے ہوئے رب کی خوشنودی حاصل کریں گے۔اللّٰہ ہم سب کو ثابت قدم رکھے۔ آمین

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار