ایشیا اردو

تحریر عامر سلطان
قدرت نے عورت کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، اگر وہ اپنی ان صلاحیتوں کا درست استعمال کرے تو بڑے سے بڑا پہاڑ سر کرسکتی ہے۔ عورت کئی روپ میں ہمارے سامنے ہے اور ہر روپ میں اس نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ اگر وہ ’ماں‘ ہے تو اپنے بچوں کیلئے جنت ہے، وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دے کر انھیں قابل انسان بناتی ہے۔ عورت اگر ’بیٹی‘ کے روپ میں ہے تو رحمت ہے، جو اپنے ماں باپ کی خدمت کرتی اور ان کا سہارا بنتی ہے۔ اگر ’بہن‘ کے روپ میں ہے تو محبت کی بہترین مثال ہے۔ ’بیوی‘ کے روپ میں ہے تو زندگی بھر اپنے شوہر کا ساتھ نبھاتی ہے، ہر سکھ دکھ میں اس کا ساتھ دیتی ہے اور ہر اونچ نیچ میں قدم سے قدم ملاکر چلتی ہے۔ غرض یہ کہ ‏عورت کا ہر روپ مثالی ہے۔عورت کی لازوال قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرنے اور معاشرے میں انھیں جائز مقام اور مردوں کے برابر حقوق دلوانے کیلئے 1911ء میں پہلی بار ’ ’خواتین کا عالمی دن‘ ‘ منایا گیا۔ اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن (International Women's Day)منایا جارہا ہے۔ رواں سال اس د ن کے حوالے سے’ ’ایک مساوی دنیا ہی ایک قابل دنیا ہے‘ ‘ کا عنوان رکھا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا کیلئے #EachforEqual کا ہیش ٹیگ جاری کیا گیا ہے۔ خواتین کی اس جدوجہد میں عام طور سے حکومتوں، کام کی جگہوں، کھیلوں، صحت عامہ، دولت اور میڈیا پر کوریج میں صنفی مساوات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی عالمی سطح پر خواتین کی معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کا جشن منا یا جاتا ہے جبکہ صنفی مساوات پر کام کو تیز کرنے کیلئے عملی اقدامات پر بھی تجاویز دی جاتی ہیں۔دنیا میں مذہب اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے خواتین کو اتنے حقوق دیے ہیں جو شاید ہی دنیا کے کسی اور مذہب میں دیے گئے ہوں۔ مرد و عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشاد ربانی ہے : ”ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کر لیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔“ (القرآن، آل عمران، 3 : 195 )معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کہ حفاظت کریں:” (اے رسول مکرم! ) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں o“ (القرآن، النور، 24 : 30 ) اور پھر اسی طرح ارشاد فرمایا ”اور (اے رسول مکرم! ) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ، کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔“ (القرآن، النور، 24 : 31 )خدا تعالیٰ نے کس قدر خوبصورتی سے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کی عزت و عصمت کے بارے میں حکم فرما دیا۔ اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ آج کے پاکستان کے اسلامی معاشرے میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ ادھر دو گروپ بنے ہوئے ہیں ۔ ایک عورت مارچ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ایک حیا مارچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں گروہ ایک دوسرے کو برا کہنے میں مصروف عمل ہیں، کبھی سڑکوں پر ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے ہیں اور کبھی میڈیا چینلز پر گالم گلوچ کرتے نظر آتے ہیں ، رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر پوری ہو جاتی ہے اور حقیقی طور پر خدا اور اسلام نے جو بنیادی اور مساوی حقوق خواتین کو دیے ہیں ، وہ سب کچھ نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔رواں سال اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں صنفی عدم مساوات پر روشنی ڈالنا ہے تاکہ خواتین بھی مردوں کی طرح اپنے جائز اور برابری کے حقوق حاصل کرپائیں۔ اس مہم کے ذریعے صنفی تفریق کے خاتمے سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی اور لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اردگرد موجود خواتین کی عزت اور ان کا احترام کریں، ساتھ ہی صنفی امتیاز سے بالاتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کریں۔ ترقی کی دوڑ میں جیت کے خواہشمند ملکوں کو خواتین کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرتے ہوئے انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات دینا ہوںگے، جو ان کا حق ہے۔ تمام شعبہ جات میں تقرری صنفی بنیادوں کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر کرنا ہوگی، ساتھ ہی خواتین کو ہراساں کرنے کے مسئلے پر بھی قابو پانا ہوگا۔ معیشتوں اور معاشروں کی ترقی کیلئے صنفی مساوات ضروری ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان میں خواتین اب ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں۔ پھر چاہے وہ ملک کے دفاع کی خاطر پاک افواج میں شمولیت ہو یا روزگار کیلئے ٹرک یا گاڑی چلانا، اب کوئی ایسا شعبہ نہیںجہاں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی نہ کی جاتی ہو۔ بحیثیت ایک قوم ہم تعصب کا مقابلہ کرنے، خیالات کو وسیع کرنے، حالات کو بہتر بنانے اور خواتین کی کامیابیوں کو منانے کیلئے فعال طور پر کام کرسکتے ہیں۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار