(تحریر: فرحان انجم ملغانی)

پاکستان کو گزشتہ چند سالوں سے موسمیاتی تباہی کا سامنا ہے۔ صورتحال اتنی تشویشناک ہے کہ اگر فوری طورپر اقدامات نہ اپنائے گئے تو ملک کو بھیانک  موسمیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مختلف ہائیڈرو میٹرولوجیکل خطرات جیسے سیلاب، شدید گرمی کی لہریں اور اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے شدید گرم  موسم نے 230 ملین سے زیادہ لوگوں کی قوم کے غذائی تحفظ، معاش اور یہاں تک کہ زندگیوں کو بھی شدید خطرہ لاحق کردیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان کو دوسروں کے موسمیاتی جرائم کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں محض 0.9 فیصد حصہ ڈالتا ہے، لیکن یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ ہمارا ملک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی عالمی درجہ بندی میں 31 ویں نمبر پر ہے لیکن یہ 2000 سے 2019 کے دوران سالانہ اوسط کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہے۔ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ موسمیاتی تباہی کا شکار ملک ہے جس نے 1999 سے 2018 کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تقریباً 10 ہزار جانیں کھونے کے ساتھ ساتھ  3.8 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان بھی اٹھایا ہے۔مثال کے طور پر، حالیہ (2023) کا سیلاب بڑے پیمانے پر لوگو ں کے ، اربوں مالیت کا مالی نقصان اور درجنوں شہریوں کی موت کا سبب بنا ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 378,000 سے زیادہ لوگوں اور 20 ہزار سے زائد جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (OCHA) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ (2023) مون سون کے آغاز سے اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 394,314 افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ 16 افراد ہلاک، 101 زخمی اور 8,061 مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ۔اس سے قبل 2022 میں، ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ سیلابی پانی کی زد میں آ گیا تھا جب غیر معمولی بارشیں ہفتوں تک جاری رہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے اور 1739 افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ ملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ او سی ایچ اے نے 2022 میں جاری اپنی صورتحال کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2022 کے سیلاب نے ملک بھر کے84 اضلاع کو متاثر کیا، جس میں 12 لاکھ سے زائد مویشی ہلاک اور 30 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔پا کستان قطبین کے بعد دنیا کا واحد ملک، ہے جس کے پا س 7000 سے زیادہ گلیشیئر ہیں ، پاکستان میں پگھلتے ہوئے گلیشیئرز، بڑھتی ہوئی جھیلوں اور سیلاب کا خطرہ کے عنوان سے UNDP کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پاکستان کے شمالی گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے 3000 سے زیادہ برفانی جھیلیں بن رہی ہیں۔ ان جھیلوں میں سے، کم از کم 33 پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں جس کے با عث نیچے کی طرف رہنے والے تقریباً 7.1 ملین افراد سیلاب کے خطرے میں ہیں ۔مذکورہ واقعات اس بات کا بڑا ثبوت ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی خطرات کا سامنا ہے۔ ملک کا جغرافیائی اور موسمی تنوع سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور لینڈ سلائیڈنگ سمیت تباہی کے خطرات کی ایک پیچیدہ تصویر ہیں۔قدرتی آفات کی شدت اور بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے جون میں پہلی بار ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن پر پہلی بار پاکستان ایکسپو منعقد کرنے کی ترغیب دی۔ اس سے قبل، این ڈی ایم اے نے 2013 میں نیشنل ڈی آر آر پالیسی، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان (این ڈی ایم پی) 2012-2022 اور نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس پلان (این ڈی آر پی) 2018 میں تیار کیا تھا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مٹیگیشن پلان-II (NDMP-II) نے پچھلی پالیسی کی جگہ لے لی ہے۔ NDMP کی میعاد گزشتہ سال 2022 کے دوران ختم ہو گئی، جبکہ NDMA بھی طویل مدتی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان 2025-2030 تیار کرنے کے عمل میں ہے۔تاہم، قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ان متعد د قوانین، منصوبوں اور آفات سے نمٹنے کے ادارے موجود ہونے کے باوجود، زمینی صورتحال ایک سنگین تصویر پیش کرتی ہے۔ ملک کے مختلف حصے مختلف قسم کی قدرتی آفات کی زد میں ہیں اور ہزاروں متاثرین اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں متعلقہ حکام کی جانب سے کی گئی کارروائی پیشگی کی بجائے رد عمل کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔میری رائے میں، موجودہ صورتحال میں پیشگی کارروائیحکمت عملی کی ضرورت ہے جس میںہنگامی حالات کے دوران پیشگی انتباہی نظام، کمیونٹی کی مصروفیت، ہنگامی منصوبے، ہنگامی مشقیں، وسائل کی فہرست، مختلف محکموں کے درمیان ہم آہنگی کا طریقہ کار، نقصان کی تشخیص اور میڈیا مینجمنٹ جیسے اشامل ہوں تاہم وسائل کی کمی ان اقدامات پر عمل درآمد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مالیاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کاایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا وقت کی ضروت ہ اس طرح ۔ڈی آر آر کی سرگرمیوں میں شامل تمام سرکاری اور نجی اداروں کے لیے آفات سے متعلق ڈیٹا تک رسائی کو آسان بنایا جانا چاہیے جبکہ ہنگاہی صوتحال سے نمٹنے کے لئے مقامی سطح ُپر رضا کاروں کی تربیت یقینی بنائی جائے ۔ اسی طرح عوامی بیداری کی مہم اور تربیت کے ذریعے مقا می کمیونٹی میں موسمیاتی حادثات سے بچنے اور نمٹنے کی صلا حیت پیدا کی جائے موسمیاتی چیلنج معاشرے کے تمام طبقات کو درپیش ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے عوام اور حکومت دونوں کو یکجا ہو کر کوشش کرنا ہوں گی حکومت کی جانب سے موسمیاتی تباہی کے واقعات کی پیشگی اطلاع کے نظام کی تیاری ایسے حادثات صورتحال میں امدادی کارروائیوں کے لیے وسائل اور عملے کی فراہمی اور ابلاغی مہم کے ذریعے خطرے سے دوچار کمیونیٹیز میں حادثات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کر کے ہم اس بڑی تباہی سے بہت حد تک بچ سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی شکل میں ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار