ایشیا اردو

  تحریر:اشتیاق احمد آتش

رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آزادکشمیر میں کسی وزیراعظم /کسی حکومت کے موجود ہونے کا احساس تو ہو رہا ہے۔ورنہ ایک زمانے سے حکمران صرف نام کو موجود تھے۔مگر وہ صرف اپنی انا۔اپنی برادری یا اپنے ہواریوں کیلئے موجود تھے۔عوام کے مفاد سے،حکومت اور ریاست کی بہتری سے انہیں عملاً کوئی غرض نہ تھی۔بیوروکریسی،محکمے اور محکموں کے سربراہان آزاد اور منہ زور تھے۔یا صرف بعض اوقات وہ منسٹر اور نام نہاد وزرأ اعظم کے ساتھ مل جاتے تھے اور نوکریوں میں بندربانٹ کرتے تھے۔اور رشوت لے کر اپنے اپنے لوگ ایڈجسٹ کرتے تھے۔لیکن سردار تنویر الیاس کے وزیراعظم بننے کے بعد یوں تو اُن کے عوامی وزیراعظم ہونے کا گمان ان کی پالیسیوں،آئیڈیاز اور ویژن کی وجہ سے ہونے لگا تھا۔لیکن اس پریقین آہستہ آہستہ ان کے عوامی مفاد کے کاموں سے ہونے لگا۔محکمہ ہیلتھ کے ینگ ڈاکٹرز کے سامنے جھکنے سے انکار۔ایمز دورہ کے بعد کی کارروائیاں۔ساون کی پہلی بارش میں وزیراعظم آفس میں نلوچھی نالہ کا پانی داخل ہو جانے پر آفسران کے خلاف کارروائی۔سی پی او سمیت سیکرٹریٹ کے وزٹ کے دوران غیر حاضر افسران کی معطلیاں،آخر ایک زمانے کے بعد مظفرآباد میں کسی وزیر اعظم کی موجودگی کا احساس ہونے لگا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے ان کے اقدامات پر تنقید بغض معاویہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور جو وزیراعظم نے چھوٹے حاضر ملازمین کو پانچ پانچ ہزار انعام دیا۔وہ کسی کی نظر نہیں آیا۔پھر بڑے عوامی اور ریاستی عزت و وقار اور فنڈز کی حفاظت کی طرف آئیے تو آزادکشمیر میں سابق وزیراعظم کی طرف سے بیوروکریسی کو دی گئی رشوت،ایگزیکٹیو الاؤنس کا خاتمہ نہ صرف ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔بلکہ بیوروکریسی اور لینٹ افسران کو وائسرائے بننے سے روکنے کیلئے ایک ٹھوس قدم بھی ہے۔پھر سب سے بڑھ کر پندرہویں ترمیم کے کالعدم کشمیر کونسل کے مسودے کو ”اپ سلوٹلی ناٹ“کہنا بھی سردار تنویر الیاس کی جرأت رندانہ  “بلکہ حقیقی الفاظ میں ”ہمت متقی یانہ“ہے۔جس پر وہ مبارکباد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں اور پورے آزادکشمیر کا بچہ بچہ انہیں سلام پیش کرتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر حیرت ہے کہ جب اپوزیشن تیرہویں ترمیم کی حفاظت پر لمبے لمبے بیان داغتی ہے تو وہ سر دار تنویر الیاس کی جرأت و ہمت کو خراج تحسین کیوں پیش نہیں کرتی۔آجکل اپوزیشن  مبینہ طور پر قائم کی جانے والی ٹوریزم اتھارٹی کے پیچھے پڑی ہے اور اُس پر طرح طرح کے الزامات اور باتیں بنا رہی ہے۔جبکہ اکثر سیاستدانوں کا مطمع نظر صرف یہ ہے کہ اُس اتھارٹی میں چند ریٹائرڈ فوجی افسروں کو شامل کرنا غلط ہے۔اس کے بدلے ان کے خیال میں ان سیاستدانوں کو عزیز رشتہ داروں کو شامل کیا جانا چاہیے۔حالانکہ ”بکروال“ کے خالق حکیم کشمیری  نے وہ پورا مسودہ مختلف گروپس میں شیئر کر دیا تھا۔ان مہربان سیاستدانوں کو اسے مکمل پڑھ اور سمجھ کر اس پر صرف تنقید ہی نہیں بلکہ ٹھوس تجاویز دینی چاہیئیں۔لیکن نہیں، بس چند ایکس فوجیوں کی افواہیں اُڑا کر سیاست ہورہی ہے۔حالانکہ بنیادی نقص موجود قوانین اور اداروں کو بیک جنبش قلم بائی پاس کرنے کا ہے۔ریٹائرڈ فوجیوں کی تعیناتی کے حوالے سے میرے بھی ہمیشہ سے تحفظات رہے ہیں۔کہ نہ صرف آزادکشمیر بلکہ پورے پاکستان میں ان پاسبانوں کے علاوہ21کروڑ80لاکھ کو بھی کوئی اہمیت دی جانی چاہیئے۔ان کیلئے بھی کوئی کام کوئی کاروبار باقی چھوڑنا چاہیئے۔اور اس حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے بھی موجودہیں میرا موضوع اس وقت مجوزہ ٹویزم اتھارٹی پر بحث کرنا نہیں ہے۔میں تو صرف ایک وزیراعظم کے اپنے موجود ہونے کا احساس دلانے اور عوامی مفاد میں ہمدردی سے سوچنے کی بات کر رہا ہوں۔اس سے قبل بجٹ میں جس طرح وزیراعظم نے مساجد کے امام اور خطیب حضرات کیلئے  اعزازیے مقرر کرنے اور زکوٰۃ فنڈ سے امداد تین ہزار سالانہ کے بجائے تین ہزار ماہوار کرنے کا فیصلہ اور اعلان کیا۔وہ سب ان اپوزیشن والوں کو نظر کیوں نہیں آتا۔دیکھیں جس طرح کے ہم عوام ہیں۔ہمارے ہوتے وزارت عظمیٰ پر کوئی فرشتہ آنے سے رہا۔موجودہ نظام میں جو کچھ سردار تنویر الیاس کررہے ہیں اس کی حمایت اگر سیاست دان نہیں کررہے تو کم از کم عوامی سطح پر ضرور ہونی چاہیئے۔ورنہ اس اپوزیشن کی تنقید برائے تنقید سن کر تو وزیراعظم صرف بد دل ہی ہو سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ اب عدلیہ درمیان میں کھڑی ہو گئی ہے۔لیکن جو بلدیاتی انتخابات سردار تنویر الیاس خوش دلی سے کروانے جا رہے ہیں۔یہ ن لیگ اور پی پی پی کی حکومتیں ”بلدیاتی نظام کی بحالی“کی تحریک سے وعدوں کے بعد بھی نہیں کروا سکی۔آخر میں ایک بات واضع کرتا چلوں کہ ٹوریزم اتھارٹی کا مسودہ میں نے آج ہی حکیم کشمیری سے منگوایاہے۔اُس پر تفصیلی تبصرہ۔تنقید و حمایت جو بھی ہو گا الگ سے ہو گا۔فی الوقت صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں سب کو مل کر اس ہمدرد وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیئں اور اُن کے نئے ہونے کو سامنے رکھتے ہوئے۔مثبت تجاویز بھی دینی چاہیئں۔ورنہ یہ جو ایک موقع قدرت نے ہمیں پھر  دیا ہے۔یہ بھی ہم پچھلے پانچ اور پانچ سالوں کی طرح ضائع کر بیٹھیں گے۔

 

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار