فکر امروز
عزیز میرانی
(حصہ اول)

8 اکتوبر 2005 کا سورج اپنے جلو میں المناک سانحہ لے کر طلوع ہوا۔ ایک طاقتور زلزلے نے ملک کے طول و عرض کو ہلا کر رکھ دیا۔ خیبر پختونخواہ ہزارہ ڈویژن اور جنوب مغربی آزاد کشمیر کی بیشتر آبادیاں انا" فانا" زمین بوس ہوگئیں۔ ہزاروں افراد جن میں بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی تھی لمحوں میں اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لئے ایک نہ ختم ہونے والا غم اور دکھ دے کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔
******
ان یاس و حسرت میں ڈوبے  تاریک لمحوں میں معاشرے کا وہ سنہری چہرہ سامنے آیا جس نے عزم و ہمت اور قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ آزمائیش کی اس گھڑی میں  انسانی خدمت کی ایسی لازوال داستانیں سامنے آئیں کہ نہ  صرف پاکستانی قوم کو اپنے اوپر فخر محسوس ہوا بلکہ پوری دنیا بھی ہماری قوم کے جذبے اور صلاحیتوں پرعش عش کر اٹھی۔
******
میں ان دنوں سیالکوٹ میں ایک بریگیڈ کی کمان کر رہا تھا۔ جس دن زلزلہ آیا میں اور میری فیملی پوری قوم کی طرح متاثرین کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی۔
میں نے اور میری فیملی نے فیصلہ کیا کہ ہر صورت مجھے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے پہنچنا چاہئے۔ چنانچہ اپنے سینئرز سے بریگیڈ کے ساتھ ریلیف ورک پر جانے کی اجازت مانگی۔ لیکن کہا گیا کہ صرف راولپنڈی، مظفر آباد اور پشاور میں تعینات فوج کو ہی بحالی کے کام کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ اس لئے کسی اور چھاونی سے فوجی دستے بھیجنے کی نہ  کوئی تجویز ہے  اور نہ ہی ضرورت۔ اس لئے اجازت نہی دی جا سکتی۔
انسانی خدمت کے جذبے کے ساتھ ساتھ میری یہ شدید خواہش تھی کہ دنیا میں کم از کم ایک ایسا کام توکر جاوں جس کو میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی بخشش کی درخواست کے ساتھ بطور ثبوت پیش کر سکوں۔ جب میں اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دبا کھڑا ہوں۔ اور اللہ تعالی مجھ سے پوچھے کہ عزیز کوئی ایک کام تو  بتاو جس کی بنیاد پر میں تمہیں بخش دوں تو میں یہ کام پیش کر دوں۔ چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ آرمی سے مجھے اپنی زیر کمان فوج کے ساتھ جانے کی اجازت نہی مل رہی تو پھر میں نے ایک ماہ سالانہ والی چھٹی لینے کا فیصلہ کیا اور اپنے سینیرز کو آگاہ کیا کہ میں اکیلا ایک رضاکار کی حیثیت سے متاثرین کی مدد کرنے کے لئے جانا چاہتا ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ میں نے ہمت نہی ہاری اور اپنے طور پر  GHQ میں  بھی متعلقہ افسروں پر زور دیتا رہا کہ مجھے میرے پورے بریگیڈ کے ساتھ وہاں جانے دیا جائے۔ میری ان کوششوں میں مجھے میرے انتہائی قابل احترام، عالی ظرف اور انسان دوست جی او سی جنرل نور حسین کا  بھرپور تعاون حاصل تھا۔
میری ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ GHQ میں سینئرز کو یہ خیال آیا کہ یہ آرڈر کے تحت نہی بلکہ انسانی خدمت اور رضاکارانہ  جذبے کے ساتھ  جانا چاہتے ہیں تو شائید دوسروں سے بہتر کام کریں، اس لئے ان کو ہی سرکاری طور پر  پورے بریگیڈ کے ساتھ بحالی کے کام کے لئے بھیج دینے کی ہدایات دے دی  جائیں۔
چنانچہ میرا پورا بریگیڈ سیکڑوں گاڑیوں کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ انسانی خدمت کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ جو تیاری چند دنوں میں ہونا تھی وہ چند گھنٹوں میں ہو گئی۔  آج بھی جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یقین نہی آتا کہ یہ کیسے ممکن ہو گیا تھا۔ اپنے جذبے پر نازاں بڑے قافلے کے ساتھ  مانسہرہ کی طرف رواں دواں  تھے اور نہی جانتے تھے کہ
 ابھی تو درجنوں ایسی روشن  مثالیں پیش آنے والی تھیں جس میں ہمارا جذبہ لوگوں کے کوہ ہمالیہ جتنے بڑے جذبے کے سامنے ایک چیونٹی سے زیادہ نہی لگنا تھا۔
*******
میں نے اپنے چلنے سے چند گھنٹے پہلے 2 ٹیمیں بالا کوٹ اور شنکیاری سرن وادی کی طرف روانہ کر دی تھیں کہ ہیڈکوارٹرز کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب کریں۔ چنانچہ ابھی ایبٹ آباد ہی پہنچے تھے کہ اطلاع مل گئی کہ شنکیاری میں جگہ منتخب کر لی گئی ہے۔ مانسہرہ سے نکلتے ہی پورے راستے میں ہر طرف تباہی و بربادی کے آثار بکھرے پڑے تھے۔
بالا کوٹ کی طرف اور شنکیاری سے آگے سرن ویلی مکمل تباہی کا شکار ہو گئی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ پورے علاقے کوکسی نے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا ہے۔
اوئل اکتوبر ہونے کے باوجود موسم میں ٹھنڈک تھی اور ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ میرے افسروں اور جوانوں نے اپنے تمام خیمے لگا کر ان میں ان زلزلہ متاثرین کو ٹھیرا لیا جو کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے لئے مخصوص کمبل ان کو دے دئیے بلکہ اپنے حصے کا راشن بھی دیگوں میں پکوا کر متاثرین میں تقسیم کر دیا۔ اور آنے والے دنوں میں جب تک خیموں کا بندوبست نہی ہو گیا، خود چند راتیں فوجی ٹرکوں میں ہی سو کر گزاریں۔ میرا ان سب کی قربانی کے اس جذبے کو سلام۔
*******
میں یہاں تفصیل میں جاکر قارئین اور متاثرین کا غم تازہ نہی کرنا چاہتا۔ یاس و غم کی ہزاروں داستانیں ہیں جن کو یاد کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لیکن ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ اس تحریر کا مقصد معاشرے کے چند روشن چہروں کا ذکر کرنا اور ان کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
بحالی کے دوران پوری قوم ایک مسیحا کا روپ دھار گئی۔ انسانیت کی خدمت اور قربانی کی ایسی لازوال داستانیں رقم ہوئیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا شائید کتابی شکل میں بھی ممکن نہ ہو۔
ہم اپنی قوم کے گلے کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ لیکن میرے علم کے مطابق تاریخ عالم میں ایسی کوئی قوم نہی ہے جو اس پیمانے اور جوش و جذبے سے مصیبت زدگان کی مدد کے لئے کھڑی ہو گئی ہو جیسی پاکستانی قوم اکتوبر کے زلزلے کے پس منظر میں کھڑی ہو گئی تھی۔
انہی دنوں افغانستان اور عراق میں امریکی افواج کا کمانڈر ایڈمرل لی فیور اظہار ہمدردی کے طور پر جب علاقے کے دورے پر آیا تو مجھے بھی ملنے آیا۔ میرے پاس آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جاپان سے آیا ہوا امریکی فوج کا موبائل ہسپتال میری نگرانی میں شنکیاری میں قائم کیا گیا تھا۔ اور ایڈمرل ان کو وزٹ کرنا چاہتا تھا۔
مجھ سے ملاقات میں اس نے پوچھا،" جنرل (امریکی بریگیڈیئر کو بھی جنرل کہتے ہیں)، اس تباہی میں کوئی اچھائی کی صورت بھی پیدا ہوئی ہے؟ میرا جواب تھا۔ کہ جی ہاں ، میں تین طرح کی اچھائیاں دیکھ سکتا ہوں۔ ایک یہ کہ اس تباہی نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ مجھے خود اپنی ہی فوج  کی صلاحیتوں پر خوشگوار حیرت ہے کہ ہماری فوج کو قدرتی آفات سے نہی بلکہ دشمن سے جنگ لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے لیکن یہ  ہمالیہ جتنے بڑے مسائل سے نمٹ رہی ہے اور اس پر قوم کا فخر بڑھتا جا رہا ہے۔
تیسرا یہ کہ دنیا میں ہمارے ملک اور قوم کا تشخص اچھا نہی ہے۔  یہاں اب سو سے زیادہ ملکوں کے نمائیندے اور این جی اوز مدد کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ وہ ہماری قوم کے روشن چہرے کو خود دیکھ رہے ہیں اور واپس جا کر اپنے لوگوں میں ہماری صحیح تصویر پیش کریں گے۔  
میں نے موازنے کے لئے ان کو یہ بھی یاد دلایا کہ امریکہ میں آئےحالیہ سمندری طوفان قطرینہ کے دوران جب بجلی چلی گئی تھی، تو لوگوں نے مدد کرنے کی بجائے کس طرح اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار شروع کر دی تھی۔ میں یہاں ایڈمرل کی تعریف کئے بغیر نہی رہ سکتا کہ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر فورا" کہا کہ ہاں ہمارے لوگ بڑے چور ہیں۔ اور ساتھ  ہی اس مشکل گھڑی میں پاکستانی قوم کی یکجہتی اور انسانی خدمت کے جذبے کی بیحد تعریف کی۔
******
چاند چہرے
زلزلے کی تباہ کاریوں کے جلو میں معاشرے کے ہزاروں روشن چہرے سامنے آئے۔ ان سب کا ذکر کرنے کے لئے ہزاروں نہی لاکھوں صفحات درکار ہیں۔ تاہم وہ  کسی ذکر کے محتاج بھی نہی اور ان کا صلہ یقینا" خدا کے ہاں محفوظ ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے چند لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت قوم بے روزگاری، مہنگائی، غربت، ناانصافی اور لاقوننیت کے روز افزوں اور بظاہر نہ ختم ہونے والے طوفان میں گھری ہوئی ہے اور  مایوسی کا شکار ہے۔ شاید ان سپید چہروں کا ذکر انہیں امید کی کرن دکھائے اور اس یقین میں اضافہ کرے کہ ابھی خدا زمیں سے گیا نہی ہے۔
*******
لاہور کا ذاکر حسین

زلزلے کا غالبا" چوتھا یا پانچوں روز تھا۔ اس مختصر عرصے میں  قوم نے وسائل کے انبار لگا دیئے تھے۔ غیر ملکی امداد اگرچہ انتہائی قابل قدر تھی لیکن اس کی ضرورت محسوس نہی ہو رہی تھی۔  ملک کے طول و عرض سے امداد اور رضاکاروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ امدادی سازوسامان رکھنے اور اس کی صحیح حقداروں تک تقسیم ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہی تھی۔
 خیمے میں لاہور کا ذاکر حسین اپنے چند ساتھیوں سمیت  چہرے پر درد و غم  اور  آنکھوں میں آنسووں کی برسات لئے میرے سامنے بیٹھا کہہ رہا تھا۔
"سر میں اپنے ساتھ 44 لاکھ روپے لایا ہوں اور آپ کے مشورے، مدد اور راہنمائی کے ساتھ میں یہ متاثرین میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں"۔
صرف ایک روز پہلے کرنل محمد سلیم نے مجھ سے زلزلہ آنے سے چند روز قبل پیش آئے  ایک اندوہناک حادثے کا ذکر کیا تھا اور حادثے کا شکار مرحومین کے پسماندگان کی مدد کے امکانات پر بات کی تھی۔ کرنل سلیم  میری لاہور تعیناتی کے دوران میرا سٹاف آفیسر رہ چکا تھا وہ انتہائی قابل، با صلاحیت، انسانی ہمدردی کے جذبے سے معمور اور پاکستان سے بیحد محبت کرنے والا افسر تھا۔ وہ کسی اور جگہ تعینات تھا لیکن جب اس کو میرا پتہ چلا تو وہ اپنے اعلی و ارفع جذبے کی تسکین کی خاطر فوج سے ایک ماہ کی چھٹی لے کر بطور رضاکار میرے پاس شنکیاری پہنچ گیا۔ اس نے معمول بنایا ہوا تھا کہ راتوں میں اور خصوصا" بارش کے دوران پیدل نکل جاتا اور ضرورت مندوں کی نشاندہی کرتا اور اگلی صبح ان کو امدادی سامان پہنچاتا تھا۔
اس نے مجھے بتایا تھا کہ شنکیاری کے نزدیک ایک گاوں میں زلزلہ آنے سے چند روز پہلے ایک شادی تھی۔ بارات کہیں جارہی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ایک بس جس میں زیادہ تر مرد اور کچھ بچے سوار تھے وہ دریا میں گر گئی اور 26 افراد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ پہاڑی گاوں کی آبادی ویسے ہی بہت کم ہوتی ہے اتنی بڑی تعداد میں مردوں کا اللہ کو پیارا ہونے کے سانحہ نے  گاوں کی زیادہ تر خواتین کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر دیا تھا۔ کرنل سلیم چاہتا تھا کہ کسی طرح اس گاوں کی بھرپور مدد کی جائے۔
گو کہ بظاہر ان کی مدد میں کوئی امر مانع نہی تھا اور نہ ہی پیسوں اور امداد کی کمی تھی۔
لیکن امداد کے ضمن میں ہمارے سامنے ایک مسئلہ درپیش تھا۔ وہ یہ تھا کہ یہ ساری امداد جو قوم، فوج اور حکومت کی طرف سے ہمارے پاس پہنچ رہی تھی اور جیسا کہ میں نے کہا کہ امدادی سامان کے انبار لگے پڑے تھے اور بینک اکاؤنٹس امدادی رقوم سے بھرے پڑے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے پاس محض زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے امانت تھی۔ ہم اس کو زلزلہ متاثرین کے علاوہ کسی اور پر خرچ تو کر سکتے تھے لیکن یہ امانت میں خیانت ہوتی جس کا فیصلہ کرنا آسان نہی تھا۔ چنانچہ ہم اسی شش و پنج میں مبتلا تھے اور اب ذاکر حسین میرے سامنے 44 لاکھ لئے بیٹھا تھا اورمشورہ مانگ رہا تھا۔ میں نے موقع کو غیبی امداد سمجھتے ہوے ذاکر کو اس مخمصے سے آگاہ کیا اور کہا کہ میری ذمہ داری کے علاقے میں زلزلہ متاثرین کی مدد کے لئے وسائل اور امدادی رقوم کی کوئی کمی نہی، لیکن یہ وسائل زلزلہ متاثرین کی امانت ہیں اور ان لوگوں پر خرچ نہی کئے جا سکتے جو  زلزلہ سے متاثر نہی ہوئے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اگر آپ اس رقم کا کچھ حصہ زلزلہ سے قبل پیش آئے بس حادثے کے متاثرین میں تقسیم کر دیں تو جہاں آپ کو بھی ثواب اور قلبی اطمینان ملے گا وہاں ہم بھی امانت میں خیانت سے بچ جائیں گے۔
ذاکر حسین نے فیصلہ کرنے میں ایک منٹ بھی نہی لگایا، چائے کو چھوڑا اور اپنے ساتھیوں سمیت کرنل سلیم کے ساتھ اس آفت زدہ گاوں روانہ ہوگیا۔ شام کو ان کی واپسی ہوئی۔ وہ پورے 44 لاکھ وہاں بیواؤں اور دیگر ضرورت مندوں میں تقسیم کر آئے تھے۔ ان کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کے تاثرات اتنے گہرے تھے کہ میں جب بھی ان کو یاد کرتا ہوں ان کا وہی چہرہ میرے سامنے آتا ہے۔
(جاری ہے)

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار