نعیم مسعود

امن اور ایجوکیشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ایجوکیشن تبھی فارمیشن ہے جب روح اور جسم سچے من کے ساتھ ایک تیسری چیز کو قبول کرلیں ، دو لہریں جیسے ملتی ہیں ان میں ایک تیسری چیز بھی یوں ضم ہو جائے کہ ایجوکیش، فارمیشن کے عوض انسانی محبت بھی سراعت کر جائے۔۔۔۔۔ یہ محبت انسان کو انسان بناتی ، اگر محبت نہ ہو تو انسانیت جنم ہی کیسے لے ؟ انسانیت وہ شہر ، وہ بستی ہے جس میں انسان بستا ہے، گر بسیرے ہی کو ادھیڑ بیٹھیں تو زمین انسان کیلئے کتنی تنگ ہو جائے؟ لیکن انسانیت تو کبھی زندگی یا زمین کو تنگ نہیں ہونے دیتی۔۔۔۔ تعلیم سے دامن گیر انسان اور انسانیت تو شہر میں شہر یار ہو جایا کرتی ہے!

یہ کہیں انسانیت اور محبت کو، میں گڈ مڈ تو نہیں کر رہا ؟  چلو نہیں بھی گڈ مڈ کر رہا تو کر لیتے ہیں نا۔ تبھی تو لہروں کے درمیاں ایک تیسری لہر گُھل مِل جائے گی ایسے جیسے مختلف شعائیں آپس میں، جییسے مختلف وفائیں آپس میں، جیسے مختلف دعائیں آپس میں، جیسے خوشبوئیں، جیسے رنگ آپس میں ، جیسے مختلف روحیں آپس میں! یہی ملاپ تو انسان کو انسان بناتے ہیں ورنہ انسان اور حیوان میں فرق ہی کتنا ہے ؟ ۔۔۔۔ بس اتنا سا کہ امن پسند ہو تو انسان ، شدت پسند ہو تو حیوان !

سیانے صحیح کہتے ہیں تعلیم خوشبو ہے یا خوش نما رنگوں کی کہکشاں ، یا پھر وہ دھنک جو ایک پراسس کے ساتھ رگ و پے بنتی ہے ، اور یہی رگ و ریشہ سے جب ایک پراسسنگ اور ایک عمل انگیزی کے ساتھ جسم و جاں و انساں سے باہر نکلے  تو پورے ایکو سسٹم،  سارے ماحول کو مہکا مہکا و جمکا چمکا دیتی ہے،۔۔۔۔۔ سمجھ لیجئے جب یہ مہکار کسی سے نکہتوں کا رنگ روپ لے کر نکلے اور گرد و نواح کو معطر کردے ، تو یہ تعلیم ہے۔۔۔۔۔۔ ڈگریاں چپکا کے کون پِھرتا ہے، تمغوں کی چھن چھن کی جھنکار اور دستار اٹھا کر کون پھرتا ہے ؟ سو تعلیم کا اظہار تو پھوٹنے والی خوشبو اور امن کی دعوت یا بناؤ کی چاہت سے جھلکتا ہے! گر امن کے داعی نہیں تو پیغمبر امن کو سمھ کیسے سکتے ہو ؟
 کسی کے میثاق مدینہ یا صلح حدیبیہ کے فلسفہ کو جان کیسے سکتے ہو ؟ پھر تو تم نے تعلیم کو چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح!

محبت، چاہت ، بناؤ یا تعلیم تو یہ ہے ۔۔۔۔۔کہ لسانی، مذہبی، علاقائی، حسد، حرص اور ہوس ، رنگ یا قدامت پسندی و لبرل ازم کے پلیٹ فارم بناؤ نہ ان پر لڑو کہ یہ لڑائیاں انسانیت کی توہین ہے!
 انسان ہو ، تو انسانیت کی توہین کر کیسے سکتے ہو؟۔۔۔ انسان ہو تو ایسے انسان دشمن اژدھے بھلا پال ہی کیسے سکتے ہو؟ کسی کے رب العالمین ہونے کو یا رحمتہ اللعالمین ہونے کو سمجھو گے تو انسان ہو جاؤ کہ اس "العالمین" کے عالم تمہی تو ہو !

ہائر ایجوکیشن کے گلستان، جامعہ جھنگ کے عزیز طلبہ و طالبات اور جھنگ یونیورسٹی کے اساتذہ و محققین!
 میں تعلیم کی بناؤ اور امن میں ہوتی ہوئی ٹرانسمیشن آپ سے نہ ڈھونڈھوں تو کہاں سے ڈھونڈوں؟ مان سچے عشق کا آپ سے نہ تلاش کروں تو کہاں سے کروں ؟ فصاحت و بلاغت آپ کے ہاں نہیں تو کہاں ہے؟ کہ "کور مِشن کل کے شہری بنانا " آپ میں نہ دیکھوں تو کہاں دیکھوں؟ ۔۔۔وہ مکالمہ جو تاریخ، آئین اور تحمل کے گھاٹ سے پانی بھرتا ہے آپ میں تلاش نہ کروں تو کہاں کروں؟ ۔۔۔۔ وہ کمیونیکیشن جو ٹرانسفارمییشن دیتی ہے ، اور کنکشن بھی، اس کے سنگ سنگ، نفرت کے بٰت اور غلط فہمی کی رکاوٹیں توڑتی ہے، ثقافتوں کے تعلقات،   باہمی عزت کی راہیں، فہم و فراست کے جھرنے اور آبشاریں  اور ایجادات و مشاہدات جیسی رونقیں آپ میں سے تلاش نہ کروں تو کس سے کروں؟

 اے جھنگ کی دانش گاہ کے درخشندہ ستارو ! اس یونیورسٹی کی خشتِ اول میری آنکھوں کے سامنے پہلے وائس چانسلر اور آج کے چئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے رکھی، آج کی سر سبز شادابی کے بیج بھی ڈاکٹر شاہد منیر نے بوئے, میں گواہ ہوں، اور آج اس چیز کا شاہد بھی کہ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن نے اس کی رعنائی اور فکری جہتوں کو جو چار چاند لگائے وہ قابلِ تحسین ہیں۔ دونوں کے کام میں سکنڈری کے بجائے قلندری ہونے کا بھی عینی شاہد ہوں!  اے ساکنانِ جامعہ جھنگ! اب آپ کے مکالمہ سے دریافتیں، نفاستیں اور منفرد تجربات اور ان سب کی ورائٹی نہ دیکھوں تو کن میں دیکھوں؟ میں دیکھنے آیا ہوں اس زرخیز بستی کے باسی بیٹے, بیٹیوں اور پروفیسرز میں وہ معاشرتی معجزہ جو انفرادی کرامتون کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے اور امن کہلاتا ہے، بتائیے آپ کی ایجوکیشن میں امن کی پروموشن نہ دیکھوں تو کہاں دیکھوں ؟ کہاں جاؤں؟

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن صاحبہ، مہمان خصوصی جناب ہرجندر سنگھ دلگیر صاحب، مہمانان گرامی جناب پروفیسر ڈاکٹر عاشق حسین ڈوگر اور قبلہ خالد نواز عربی صاحب !
آپ ہی بتائیے کیا امن کا پرچار گلوبل مسئلہ اور عالمی ضرورت نہیں؟ کیا ایوانوں میں جانے والے ، اقتدار کی راہداریوں تک پہنچنے والے کسی ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن سی محقق کے در سے ہو کر نہیں جاتے؟ یہ ججز اور اور یہ بیوروکریٹس استاد کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے بعد قوت نہیں پاتے ؟ کیا اسلاموفوبیا کی خاطر ہمیں صفائیاں دینی ہیں یا صلح حدیبیہ و میثاق مدینہ اور ایک پتہ ٹوٹے بغیر فتح مکہ کے پس منظر کے کردار کا پرچار اور عملی نمونہ ہی کافی ہے؟ ڈاکٹر نبیلہ صاحبہ رئیسہ جامعہ ہیں اور ڈاکٹر ہرجندر سنگھ دلگیر آپ پچاس کتابوں کے مصنف، ناروے اور برطانیہ میں مانے جانے والے ریسرچر اور زبانوں کی نزاکتوں اور رویوں کے رموز سے آشنا ہیں کیا یونیورسٹیوں کو پالیسی ساز، قانون ساز اور کردار ساز نہیں دینے ؟ یہ سب دیں گے تو امن اور امن ساز دیں گے! "ایجوکیشن سے امن کی بڑھوتری" کا سیمینار کسی حادثہ کی بنیاد پر جھنگ یونیورسٹی میں نہیں رکھا گیا یقیناً یہ کسی امید کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ میرے بچے اور بچیاں وہ اسکالرز بیٹھے ہیں جو میری امید کے دامن اور سچائی کے ضامن ہیں!

 ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن و ڈاکٹر دلگیر ! کیا یہ سچ نہیں کہ اسی مارچ 2023 میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ نے لاء سکول میں قدامت پسندی و لبرل ازم کے تناؤ نے ایک فیڈرل جج کی تقریر پروان نہیں چڑھنے دی حالانکہ سب قانون دان تھے۔ اس سے چند ماہ قبل یئیل (Yale) لاء اسکول کے طلبہ نے بی یہی کچھ کیا اور پھر انہی دنوں ایسا ہی ماجرا ہیسٹنگز کالج آف لاء کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ہوا تو سوچا اور سمجھا یہ گیا کہ مکالمہ کا در وا کیا جائے! سروے ہوں کہ کیسے کمیونیکیشن سے ٹرانفارمیشن ، بناؤ اور امن کے دریچے کھولے جائیں۔ گویا امن صرف ہمارا نہیں عالمی چیلنج بھی ہے، اور میں یہ سمجھتا ہوں اس عالم میں ابھرتی ہو جھنگ یونیورسٹی کی دنیا بھی ایک وہ ننھا مگر پُراثر عالم ہے کہ جو اپنے حصہ کی شمع روشن کرے گا، اس روشنی کے وعدہ کی میں توقع کرتا ہوں اور یہی توقع جھنگ یونیورسٹی سے ڈاکٹر ہرجندر دلگیر، ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن اور ڈاکٹر عاشق ڈوگر بھی رکھتے ہیں! یہ ضروری ہے کہ یونیورسٹیاں فکری مارکیٹ بنیں اور گفتگوؤں کا سِوِک معیار ملے۔ نسلی، مزہبی اور فرقے کی لڑائی نہ ہو سو ڈیلِبریٹِو ڈیموکریسی کے چلن کو اجاگر کرنا جامعات اور ان کی تعلیمات ہی کا فرض ہے ۔ 1916 میں ڈیوی ، 1985 میں نیومین  اور 1987 میں گُٹمین نے بھی اتفاق کیا کہ " ہائیر ایجوکیشن کے اداروں کو مستقبل کے شہری کی گریجوایٹنگ کریں یا ڈویلپنگ ورلڈ سیٹیزن یا کچھ ایسا ہی کچھ اور ۔ پھر ایسے افراد تیار کریں جو ڈیموکریسی میں کردار ادا کریں۔"  

میں بھی:  "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں / مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں" ۔ بلاشبہ تعلیم ہو تو  گلشن میں علاج تنگی داماں کا مسئلہ ہی نہیں ہوتا اور نہ تعلیم کے ہوتے تنگ نظری ممکن ہے ، تعلیم تو وہ دوربین کہ جو وسعت نظر اور وہ خوردبین کہ جو چشم بینا بھی دے!

( وہ گذارشات جو سیمینار کی نذر کیں)

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار