مدیحہ امین

پچھلے دنوں میری ایک تحریر کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایسے سوال اٹھائے گئے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔اس لامعنی بحث میں کچھ ایسے بھی موڑ آئے جب مجھے لگا کہ میں اپنا سیلف کنٹرول کھو دوں گی لیکن پھر دل کو سمجھایا اور ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے سب ہوا میں اڑا دیا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ صدقہ صرف مال و جان کا ہی نہیں عقل کا بھی ہوتا ہے۔

زندگی میں بہت سے ایسے موڑ آتے ہیں جب آپ کا سامنا کچھ ایسے لوگوں سے ہو جاتا ہے جو آپ کی عقلی،علمی یا مالی برتری برداشت نہیں کرتے اور مختلف حربے استعمال کر کے آپ کو زچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہی آپ کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ تنقید کرنے والے کے سوالوں کی نوعیت کا ادراک ہوتے ہی جلدی یا دفاعی ردعمل کا اظہار  نہ کریں، آپ کی ذات کے پرخچے بھی اڑ رہے ہوں تو پر سکون رہیں کیونکہ آپ کو اپنا آپ بنانے میں خود کو اس مقام تک لانے میں شاید سالوں کا سفر طے کرنا پڑا ہو اور کسی کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ چند منٹوں میں ہی آپ کو آپ کے مقام سے گرا دے ۔

 انسان کے اندر شر کے خزانے ہیں جن کو وہ نفسانی کنٹرول کی رسی سے باندھ کر رکھے تو ولی ہے اور اگر کھلا چھوڑ دے تو حیوان سے بھی بدتر ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پالے۔ عقلی امتحان جسمانی امتحان کی نسبت قدرے مشکل ہوتا ہے جس میں ناکام ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

 تقسیم ہند سے پہلے کی ایک تاریخی شخصیت،گاماں پہلوان جو اپنے طاقتور جسم  اور پہلوانی کے میدان میں ذہانت  کی وجہ سے پورے برصغیر میں مشہور تھا۔ ایک دن عقل نے اس کا کچھ یوں امتحان لیا کہ اس کا جھگڑا ایک غلام محمد نامی دکاندار سے گیا جس نے طیش میں آ کر گاماں کے سر پر کسی بھاری چیز سے وار کیا جس سے اس کا سر پھٹ گیا پر بجائے دفاعی کاروائی کرنے کے گاماں سر پر ہاتھ رکھ کر گھر کو چل پڑا ۔  کیونکہ خود سے کم طاقتور پر وار کرنا اسے اپنی طاقت کی توہین لگی اور اس نے ریسلنگ کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی میں بھی عقل کا استعمال کر کے سمجھدار ہونے کا ثبوت دیا۔

بالکل ایسے ہی زندگی میں آپ کا سامنا بھی بہت سے غلام محمد جیسے لوگوں سے ہوگا جو ہاتھ میں بھاری بھرکم چیزیں لئیے آپ کی عقل پر وار کرنے تیار کھڑے ہونگے پر آپ نے گاماں کی طرح فوری ردعمل اور دفاعی ہونے سے پرہیز کرتے ہوئے چپ چاپ کان جھاڑ کر گزر جانا ہے ۔ 

بارش کا کام ریتلی اور چکنی دونوں طرح کی زمین پر ایک ہی مقدار میں برسنا ہوتا ہے۔ اب یہ زمین کی کپیسٹی ہے کہ وہ کتنا پانی اپنے اندر جذب کرتی ہے ۔ آپ کا کام بھی معاشرے کو ایک ان پٹ دینا ہے یہ اب لوگوں پہ منحصر ہے کہ وہ آپ کو کیا آؤٹ پٹ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا "جس کا جتنا ظرف اتنا پہچانا مجھے۔"

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار