نعیم مسعود/ نظرکَش


مولانا کی کچھ ادائیں سب کا دل لبھاتی ہیں، ان کی تقریر میں ایک پورا سیاسی چَسکا ہوتا ہے صرف جنت کی بشارت یا جہنم سے ڈرانا ہی نہیں۔ اپنی تقریر میں کھڑکا دڑکا تو خیر ہر مولوی کرتا ہے مگر مولانا کی خوبی یہ بھی ہے کہ اسٹیج پر اگر ان کے دائیں بائیں سب مُلا ہوں تو تقریری مقابلہ یہی لُوٹتے ہیں جیسے کوئی قادرالکلام مشاعرہ لُوٹے،  وہ ایم ایم اے کے علمائے کرام لُوٹنا یاد ہے ذرا ذرا۔ اگر ان کے اسٹیج پر مسٹر بیٹھے ہوں تو مولانا سے بڑا کوئی مسٹر نہیں، پھر یہ ان مسٹرز یا سیاسی ماسٹرز کا بھی میلہ لُوٹ کر دکھاتے ہیں جیسے پی ڈی ایم کا لُوٹ لیا کرتے تھے، سو پاکستانی سیاست کا یہ حُسن ہے کہ اس میں جمہوری و غیر جمہوری ، اسلامی و غیر اسلامی  اور مقتدر و غیر مقتدر لُوٹ کھسوٹ کی دلربائی لازمی  ہے!

 مولانا کا چند دن قبل کا فرمان ایمان "تازہ" کرتا ہے کہ " ہمیں اقتدار کا لالچ نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ملک اور ادارے مضبوط ہوں!"  بلاشبہ و بلا مبالغہ مولانا نے سن 2002 میں اس کا من بھاتا اور منہ بولتا ثبوت بھی  فراہم کیا جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے ، ان کے ایم ایم اے کے ممبران اسمبلی کی تعداد 63 تھی جس میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان ، جمعیت علمائے اسلام (سمیع اللہ گروپ)، اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے علامہ  ساجد میر اور تحریک جعفریہ کے علامہ ساجد نقوی تھے۔  واضح رہے کہ ایم ایم اے کا بانی قاضی حسین احمد ہی کو گردانا گیا۔  پیپلزپارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد 81 تھی۔ پورے پاکستان میں حاصل کردہ کل ووٹوں کی تعداد بھی پیپلزپارٹی کی حاکم جماعت قاف لیگ سے زیادہ تھی۔  جنرل مشرف کی جانب سے جہاں ایم این اے کو جتوانے اہتمام ہوا وہاں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں کمر توڑنے کیلئے اس کے بطن سے پیٹریاٹ کو جنم دینے کا باقاعدہ اہتمام بھی ہوا تھا تاکہ اوکھے سوکھے اپوزیشن لیڈر امین فہیم کے بجائے مولانا ہی ہوں۔  واضح رہے کہ یہ الیکشن محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی جلاوطنی میں ہوا تھا، اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا چوہدری شجاعت حسین اور مولانا میاں محمد اظہر جمہوری رویوں، اقدار اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے کس قدر دلدادہ تھے ؟ اس الیکشن 2002 میں تحریک انصاف کی قومی اسمبلی ایک ہی سیٹ تھی۔ شاید الیکشن 2002 وہ آخری الیکشن تھا جس دایاں بازوں کا کمال اور جمال سر چڑھ کر بولتے تھے، 2007 کے میثاقِ جمہوریت نے اس دایاں بازو اور بایاں بازو کا تاثر تحلیل کیا۔  اس سے قبل تو شریف بھی مولانا نواز شریف اور کپتان بھی مولانا عمران خان ہی تھے کیونکہ بےنظیر کا مقابلہ کرنے کیلئے "اسلامی ٹچ" اس وقت کی مقتدر مجبوری بھی تھی، ویسے نظریاتی طور پر ضیائی آمریت کے بعد پرویزی آمریت میں "سب سے پہلے پاکستان" کے ٹچ نے دایاں اور بایاں بازوؤں کی ہوا نکالنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

 یہاں سوال یہ بھی ہے کہ مولانا نے "ہمیں اقتدار کا لالچ نہیں" کے سنگ سنگ جو  یہ بھی کہا " ملک اور ادارے مضبوط ہوں!" اس حب الوطنی سے یہ خوشبو بھی آتی ہے کہ وہ مشرف سی مخصوص محبت کے متلاشی ہیں تاکہ ان کی سیاست کے گلشن کے کاروبار کو بھی فروغ ملے۔  یہ کون بھول سکتا ہے کہ "مولانا سیاست" کی وسعت بین الاقوامی ہے کہ جب کبھی ہمیں امریکہ یا اقوام متحدہ سے مراعات لینے کے ساتھ ساتھ اپنا اسلامی ٹَچ شو کرنے کی ضرورت ہو تو وہاں ٹِچ بٹن لازم و ملزوم ہیں!

جو بھی ہے، نظریہ پاکستان ، نظریہ اسلام ہی ہے پس اس نظریاتی وفا کا تقاضا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی ، جدتوں اور جمہوری محبتوں کو کسی موڑ پر بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ بناؤ کیلئے ضروری ہے کہ ہر صورت میں جمہوری اقدار کو جلا بخشی جائے نہ کہ ذاتی اقتدار اور ذاتی لالچ کیلئے کبھی شعار،  کبھی "اقدار" اور کبھی اظہار کو مِس یوز کیا جائے۔

حال ہی میں مولانا نے دورہ برائے فلسطین سے قبل، کراچی میں فلسطین کے حق میں ریلی میں جہاں پیپلزپارٹی کو یہ عندیہ دیا کہ ہم مینڈیٹ کی چوری نہیں ہونے دیں گے وہاں یہ بھی پَھبتی کَسی ہے "ہم نے 2018 کے بعد اسرائیلی ایجنٹ کے خلاف جنگ لڑی ہے! " ان کا ایجنٹ والا اشارہ یقیناً عمران خان کی طرف تھا۔ کم از کم  "ایجنٹ" کے مقابلہ پر تو  مولانا کی فصاحت و بلاغت کہیں زیادہ تھی ، پھر اس سے جمہوری جنگ کیوں نہ کر سکے، اور نہ جیت سکے؟ اس پر مولانا محترم کو غور کرنا ہوگا۔ اور انہیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ آئین ایک زندہ دستاویز اور جمہوریت ایک متوازن نظام ، اور یہی کسی ریاست کی ترقی کی ضمانت ہیں۔ اگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہے تو علمیت کو وقت کے ساتھ ساتھ چلانا اور بڑھانا ہوگا۔  فلسطین کا دکھ پاکستان کا دکھ ہے اور اسرائیل انسانی حقوق کو باقاعدہ پامال اور اقوام متحدہ کو باقاعدہ نڈھال یا استعمال کر رہا جس کی مذمت ضروری ہے۔ مولانا محترم بھی ہیں اور مقدس بھی تاہم دست بستہ سوال یہ بھی کہ  اسرائیل فلسطین لڑائی کو ہم اپنی دیلیز پر کیوں لاتے ہیں ؟ امت مسلمہ کی مدد کرنی ہے تو سائنس و ٹیکنالوجی اور انجنئیرنگ میں کمال لازم ہے ورنہ دور دور سے تحریک خلافت کے دور سے تاحال سب کر کے دیکھ لیا ، فائدہ کیا ہوا ؟ ہم تو ایک نوبل لارییٹ پیدا کرنے سے قاصر ہیں، ٹھنڈے دل سے سوچئیے ، ایسی سوچ غداری کا ارتکاب ہوتا ہے نہ ایمان کو خطرہ ، عمل سے زندگی بنتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہماری سیاست پاکستان میں جمہوری جدوجہد کا نام کسی جنگ و جدل کا نہیں کہ ملا یا مسٹر باہر کی باتوں کو یہاں مِس یوز کرے!

دیکھنے ایک بات یہ بھی ہے کہ تحریک خلافت (1919-1922) سے تاحال برصغیر کے مسلمان دُور سے دیگر مسلمانوں کی تکالیف کا ازالہ چاہتے ہیں لیکن جلسے جلوسوں سے آگے کچھ نہیں بڑھ پاتے!  کیوں؟  اس کی وجہ یہ ہے کہ معیشت، علمیت، تحقیق و تفتیش اور ٹیکنالوجی پر ہماری دسترس نہ ہونے کے مترادف ہے۔ سو مولانا آپ کی بات درست ہے کہ "ملک اور ادارے مضبوط ہوں"  مگر ازراہ کرم ان میں تعلیمی و تحقیقی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کو بھی شامل کر لیجئے، عنائت ہوگی۔

یہ جو 8 فروری 2024 کی الیکشن کی نوید ملی ، چلتے چلتے اس کے خالص سیاسی تناظر میں یہ عرض کردیں کہ فقیر کو یوں لگ رہا ہے گر زرداری قوت بخش لوگوں کے ساتھ کوئی ہینکی پھینکی کریں گے تو مولانا سندھ میں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے سنگ اسلامی ٹَچ کی برکات کا سبب بن سکتے ہیں. جہاں دیگر مقابلے ہوں گے وہاں پھر  آصف علی زرداری کی مفاہمت کی شہنشاہیت اور مولانا کے اقتدار کی "بےلالچی" کا مقابلہ بھی دیکھنے والا ہوگا !

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار