نعیم مسعود

دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں، یہ دیسی اسٹائل بھی کیا کمال گورکھ دھندہ ہے، جتنا سادہ اس کا پیش منظر ہے  اُتنا ہی پیچیدہ اس کا پس منظر، کب تک ہم سب چیزیں ایک ہی کھونٹی سے باندھتے رہیں گے، بے مہار چیزیں بھی اسی کھونٹی پر بے نیاز اشیا بھی اُسی کھونٹی پر۔ گویا گدھے اور گھوڑے کے واضح فرق کو بھی جب تک نام نہاد ٹیکنوکریٹس اور شتر بے مہار قیادت "کوّا سفید..." والے فارمولے سے نہ ماپ لے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ انہی کی تسلی کیلئے تو "فطرت" نے ضلع چھوڑ تحصیلوں میں جامعات کے قیام کا بیڑا اٹھا لیا۔
گویا ہم چلے دیسی انداز میں پیپرز شائع فرمانے، دیسی اسٹائل میں پڑھنے پڑھانے، دیسی اسٹائل میں سنڈیکیٹ کے اجلاس اور اسی دیسی اسٹائل میں بھرتیاں کرنے۔ اور، تو اور ہم نے وی سی بھرتی کرنے ہوں تو زمانہ سَرچ کمیٹی بناتا ہے، اور ہم سَرچ کمیٹی کے نام پر پنچایت بٹھا دیتے ہیں یا بیوپاری۔ دو بندے سرپنچ کے بھرتی کرنے ہیں، تو ایک منشی بشیر کا اور ایک شیدے نمبردار کا ورنہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، اچھا اگر رحیم بخش دکان دار کا بھرتی نہ ہوا تو صابن نِیل سب کی بند پھر داغ کیسے نکلیں گے؟ چلو، پھر ایک رحیم بخش دکان دار کا بھی بھرتی کر ہی لیں۔  یار معاملات اب ٹھیک ہو گئے مگر اُس اَچھو ڈھنڈورا پیٹ کا بندہ بھرتی نہ کیا تو پورے زمانے میں سرخیاں جم جائیں گی اور ٹِکرز بھی تیزگام کی طرح چل نکلیں گے۔ سو اب کیا ہو؟ یہاں پوری پنچایت ششدر رہ گئی ، اب کیا ہو بابو افتخار پہلے ہی ناراض ہے، اَچھو ڈھنڈورا پیٹ الگ تماشا، سب پریشان تھے کہ بابا تُلسی دین آدھا سویا آدھا جاگا پنچائت کی ایک نُکر سے لب کشائی کی اَچھو اور بابُو کو کہیں دونوں کسی ایک بندے کو  آدھا آدھا کر کے اس پر راضی ہو جائیں، ہم اسے سالم کر کے بھرتی کرلیں گے !
بقول احسن مارہروی: کیا داد سخن ہم تمہیں دیں حضرت ناصح ۔۔۔۔ ہے سو کی یہ اک بات سمجھ میں نہیں آتا۔ پنجاب تو ٹھہرا پنجاب مگر اسلام آباد میں وفاقی وزارتِ تعلیم کے پاس دو چار یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ حکومت آئی تو ان تجربہ کاروں نے رانا تنویر حسین کو ایجوکیشن کا قلم تھما دیا، یقیناً رانا صاحب زیرک سیاستدان ہوں گے لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ، وہ وزارتِ تعلیم کا کرتا دھرتا بھی بنیں گے، باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ سنیٹر عرفان صدیقی کے مشورے بھی چلتے ہیں، کیونکہ ایک یونیورسٹی میں ان کے پیارے بھائی کا عمل دخل بھی چلتا ہے (شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے). لیکن پھر بھی استدعا ہے سنیٹر صاحب سے کہ غلط سہی تاہم ہائر ایجوکیشن کے کوچہ و بازار میں جناب کا بھی نام زبان زد خاص و عام ہے تاہم لوگ عرفان صدیقی سے ازالے  اور میک اپ کی توقع بھی رکھتے ہیں!

 المختصر اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی یعنی قائدِ اعظم یونیورسٹی کو تو رو دھو کے وائس چانسلر مل گیا تاہم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پہلے تو ایکٹنگ وائس چانسلر وزیر موصوف نے اپنا ہی نوٹیفکیشن جاری کردیا بعد میں خیال آگیا تو شکر ہے واپس لے لیا، تاحال اوپن یونیورسٹی اور اسلامک انٹرنیشنل مستقل وی سی نہ ہونے کی سزا بھگت رہی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے بار ہا جہاں ایکٹنگ یا ایڈیشن چارج ہوا تین چار قباحتیں ضرور ہوتی ہیں: 1۔ ایکٹنگ صاحب کسر نفسی میں نظام کا حشر نشر کر دیتے ہیں۔ 2۔ دھڑے بازی سے پکا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3۔انتقام کے دریچے کھولتے ہیں۔ 4- آگے بڑھتی یا بڑھی یونیورسٹی سالوں پیچھے چلی جاتی ہے۔ متذکرہ یونیورسٹیوں پر ہوئی تقرریوں کو جان بوجھ کر بدلا گیا (سوائے قائدِ اعظم یونیورسٹی) پھر ایک پہیلی روز دستک دیتی ہے کہ وہ کون سا کرائٹیریا تھا سابق دو دفعہ وی سی رہنے والا شخص جس کے پاس ستارہ امتیاز اور تمغہ امتیاز بھی تھا وہ میرٹ میں ٹاپ نائین پر نہیں تھا ! (انا للہ واناالیہ راجعون) کاش کوئی اس کی تحقیق کرے ، اور جو دو دفعہ کا ایک اور وائس چانسلر تھا ( جامعہ گجرات اور اوپن یونیورسٹی) وہ اوپن یونیورسٹی میں ٹاپر ہو کر گویا "مقرر" ہو کر تقرری سے ہاتھ دو بیٹھا ۔ کوئی ہے جو اس کی انکوائری کر سکے گر چانسلر/ صدر مملکت کو چھان بین کا کہیں گے تو یار لوگ سیخ پا ہو جائیں گے ! بتائیے پھر وفاقی پنچائت / جرگہ برائے وائس چانسلر کے ہاتھ پر ایجوکیشن کا لہو تلاش کریں یا کوئی اور کسی کے دستانے اتار کر دیکھنا پڑے گا ؟

ویسے لگے ہاتھ یہ بھی بتا دیجئے جو پَنچایَت کم شیخ الجامعہ تلاش کمیٹی پنجاب کی 19 یونیورسٹیوں کیلئے بنی ہے یہ دو دن میں کیسے تلاش کرلیں گے؟
ماضی میں کامسیٹ یونیورسٹی کے وی سی کی تقرری کیلئے موجودہ چئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار سے سیدھی سیدھی زیادتی ہوئی تھی ، میں نے کئی ماہر تعلیم سے مختلف انٹرویوز میں سوال بھی اٹھایا بانی چئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے مجھ سے اتفاق کیا جو آن ریکارڈ ہے، سو آج میں گر عزت مآب ڈاکٹر مختاراحمد محترم سے پوچھوں کہ کیا یہ تاریخ نے ڈاکٹر ضیاءالقیوم برائے اوپن یونیورسٹی کے حوالے سے اپنا آپ کو دہرایا نہیں؟

جاتے جاتے دو المناک اور دلخراش باتیں دل تھام کر مختصراً سن لیجئے:
 1۔ صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن پنجاب ہو یا سندھ ان کے وجود مرکز اور ماہر تعلیم دل سے تسلیم کریں، اور ان پر بیوروکریسی اور مرکز رحم فرمائے یہ 18ویں ترمیم کا حسن ہے، ایچ ای سی پاکستان پولیس مین بننے کے بجائے ریگولیٹری باڈی رہے تو گلشن کا کاروبار چلے گا ۔۔۔۔  خدارا وہ وکھری پَنچایَت اور "نَوِکلی پولیس" یونیورسٹیوں پر نہ بنے، عنائت ہوگی!
2۔ پنجاب یونیورسٹی کیلئے لوگ لنگوٹ کس کر سفارشیں دریافت اور ایجاد کر رہے ہیں ، اور پرائیویٹ سیکٹر تک اپنے اپنے باکمال لوگ لاجواب سروس کیلئے کوشاں ہیں۔ جاگتے رہنا میرٹ پر نہ رہنا !
3۔ دیسی اسٹائل سے سوچنے والے یہ کبھی نہ فراموش کریں پنجاب یونیورسٹی ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، جامعہ گومل، جامعہ زکریا، جامعہ کراچی، جامعہ سندھ، قائدِ اعظم یونیورسٹی ، یو ای ٹی لاہور وہ ٹائٹینک اور جمبو جامعات ہیں جہاں صوبائی و مرکزی حکومتوں اور ایچ ای سی دل کھول کر گرانٹ دینی ہوگی، ان کا نوخیز یونیورسٹیوں یعنی جی سی یو ایف یا سرگودھا سے کوئی مقابلہ نہیں ان کا پینشن مد میں خرچہ نہ ہونے کے مترادف ہے جبکہ متذکرہ جمبو جامعات میں ہر  یونیورسٹی کو سینکڑوں کو ماہانہ پینشن دینی پڑتی ہے جو 2002 اور بعد میں بننے والی یونیورسٹیوں کی تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہے، ان بڑی یونیوسٹیوں کو خود مختاری بھی دیں اور مدد بھی فرمائیں، ان کیلئے ڈیپارٹمنٹس ، فیکلٹیز ، ایڈمنسٹریشن اور جدتیں بڑھانا لازم ہیں ، بہرحال یہ ایک باریک بات ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ان یونیورسٹیوں میں کوئی کم سن یا ناتجربہ لائیں گے ، تو فقیر نے "ٹائٹینک " کو ریشمی لفاظی کے طور سے نہیں نازک اور خطرناک پیرائے میں عرض کیا ہے۔۔۔۔ باقی پنچائتیں تو پھر پنچایتیں ہیں انڈا دیں یا بچہ !

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار