تحریر : نعمان حفیظ


غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کی اپنے وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے ایک رپورٹ کےمطابق گزشتہ روز(8 نومبر تک ) 4 ہزار 119 غیر قانونی مقیم افغان باشندے اپنے ملک واپس چلے گئے جن میں 1272 مرد اور 1188 خواتین سمیت 1659 بچے شامل تھے۔ افغانستان روانگی کیلئے 251 گاڑیوں میں 702 خاندانوں کی اپنے وطن واپسی ہوئی۔ اب تک 2 لاکھ 7 ہزار 758 غیرقانونی مقیم افغان باشندے اپنے وطن واپس جاچکے ہیں۔ واضح رہےکہ حکومت پاکستان نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن دی تھی جو اب ختم ہوچکی ہے، ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو کیمپوں میں رکھا جارہا ہے۔ عوامی آراء جاننے کے حوالے سے معروف ادارے گیلپ پاکستان نے سماجی رویوں پر نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق 84 فیصد افراد نے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے کو اچھا فیصلہ قرار دیا۔ سروے میں 69 فیصد نے امید ظاہر کہ افغان شہری اپنے وطن لوٹ جائيں گے۔ گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 64 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ افغان شہریوں کے اپنے وطن واپس جانے سے پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی۔ سروے کے مطابق55 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ افغان شہریوں کی وطن واپسی سے پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔
مہاجرین کی تشریح اور انٹر نیشنل قوانین
یو این ریفوجی کنوینشن (جنیوا) 1951ء ، ریفوجی پروٹوکول 1967ء (جس میں ریفوجی ، کی تشریج کی گئی ہے یا مہاجرین کے حقوق کے تحفظ ، قانونی ذمہ داریوں کی بات واضح کی گئی ہے) پاکستان اس حوالے سے کسی بھی عالمی کنوینشن کا دستخط کنندہ نہیں۔ لہٰذا پاکستان پر یہ ذمہ داری بھی نہیں کہ مہاجرین کے بارے عالمی قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہو۔ پاکستان اس بات کا پابند بھی نہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر عالمی قوانین کے تحت مہاجرین کواپنے پاس ضرور اورہر حال میں رکھے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ پاکستان کو مجبور نہیں کر سکتا۔ پاکستان اس وقت غیرقانونی تارکین وطن کے مسئلے سے دوچار کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں غیرقانونی تارکین وطن کے بارے میں کوئی ایک مربوط پالیسی موجود نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون بھی نہیں جو لفظ مہاجرین یا غیرقانونی تارکین وطن کی تشریح کر سکے، یا ان کے حقوق کے حوالے سے دو ٹوک بات کی گئی ہو۔ دیگر ممالک سے پاکستان میں آنے والوں کے داخلے اور رہنے کے حوالے سے فارینرز ایکٹ 1946ء، نیچرلائیزیشن ایکٹ 1926، پاکستان سٹیزن ایکٹ 1951ء اور سٹیزن شپ رولز 1952ء کا سہارا ہی لیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ان میں یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ کون غیرملکی شہری ہے اور کون مہاجر، اور وہ کتنا عرصہ ملک میں رہ سکتا ہے یا اس کا شہری بن سکتا ہے۔ لیکن 2021ء میں پاکستان نے یو این ایچ آر کی جانب سے مہاجرین کیلئے طے کئے گئے اصولوں کو اپنی پالیسی میں کچھ جگہ دی۔ نیچرلائیزیشن ایکٹ پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق دیتا ہے لیکن اس میں افغان مہاجرین شامل نہیں۔ لہذا جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ 40 سال گذرجانے کے باوجود وہ پاکستانی شہری کیوں نہیں بن سکے ہیں؟ یا افغان مہاجرین کے بچے یہاں پیدا ہوئے ان کوشہریت دی جائے۔ اس بنیاد پر جن افغان مہاجرین نے پاکستانی شہریت کیلئے روجوع کیا، انتظامی یا عدالتی طور پر ایسی تمام درخواستیں مسترد کردی گئیں۔
انٹرنیشنل آرگنائیزیشن فار مائیگریشن کی رپورٹ کے مطابق 28 لاکھ چالیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔2017ء میں یو این سی ایچ آر کے تعاون سے 8 لاکھ چالیس ہزاو افغانوں کو افغان سٹیزنشپ کارڈ بنا کر دیئے گئے۔ اس سے قبل 2016ء کے دوران دو لاکھ افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا گیا تھا۔ کیونکہ 2002ء میں پاکستان نے یواین ایچ سی آر کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت افغان مہاجرین کو سکون کے ساتھ واپس اپنے وطن روانہ کیا جائے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں 7 لاکھ پچاس ہزار غیررجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ جون 2016ء میں ہی عالمی اداروں نے وطن واپس جانے والے ہر افغان مہاجرخاندان کو 400 ڈالر ادا کرنے کی پیشکش کی، اور کئی خاندانوں کو واپس بھیجا لیکن یو این ایچ سی آر نے دسمبر 2016ء کو افغان خاندانوں کو وطن واپس بھیجنے کیلئے 400 ڈالر رقم دینے کا پروگرام بند کردیا۔ کیونکہ یہ باتیں سامنے آئیں کہ کئی خاندانوں نے 400 ڈالر لیئے، افغانستان میں داخل ہوئے اور چند ماہ کے بعد پھر واپس آگئے۔
پاکستان کی واضح پالیسی
پاکستان نے افغان مہاجرین کو دسمبر 2017 کی حتمی تاریخ بھی دی تھی کہ وہ اس عرصے کے دوران اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ باوجود اقوام متحدہ کے ادارے کی مالی مدد اور بار بار گذارش کرنے کے افغان مہاجرین وطن واپس جانے کو تیار نہیں۔ لیکن دنیا پاکستان پر دبائو ڈالے ہوئے ہے کہ افغان مہاجرین کو وطن واپس نہ بھیجیں۔ دوسری طرف وہی قوتیں جن میں یورپی یونین بھی شامل پے، افغانوں کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق کم از کم تین لاکھ پچاس ہزار افغانوں نے یورپ کے مختلف ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں لیکن ان کی وہ درخواستیں رد کردی گئیں تھی۔
جب سے موجودہ نگران حکومت نے اکتوبر 2023ء میں غیر قانونی افغان مہاجرین کو صرف ایک ماہ کے اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا۔اس حکم نے پاکستان اور افغانستان میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ان افغانوں کو بھی خوب تنگ کیا جن کے پاس تمام دستاویزات موجود تھیں۔بظاہر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ مہاجرین میں موجود کچھ لوگ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو بھارتی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں لیکن جس بھونڈے انداز میں صرف ایک ماہ کے اندر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی کوشش کی گئی اس نے دونوں ممالک کے مشترکہ دشمنوں کا کام آسان کیا اور وہ دونوں طرف اختلافات کی آگ پر مزید تیل ڈال رہے ہیں۔ پاکستان اورافغانستان کو ایک دوسرے کی خودمختاری اور آزادی کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ دونوں کی سلامتی ایک دوسرے کی سلامتی سے مشروط ہے۔  ۔یہ کوئی نئی بات نہیں 30ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی لیکن کچھ دنوں کے بعد اس مخالفت سے دستبردار ہو گیا۔ جب بھی ان دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو کچھ لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ دونوں کوایک دوسرے سے لڑا دیا جائے لیکن تمام ترسازشوں کے باوجود انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں لایا جا سکا۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار