تحریر۔۔رحیم طلب  

گائیکی کے میدان میں جن لوگوں پہ لفظ لیجنڈفٹ آتا ہے وہ ہیں ہی واقعی لیجنڈ۔ موسیقی میں وہ صرف ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن خان ہیں. ملکہ ترنم نور جہاں کی گائیکی کاسفر 1958 ء میں پلے بیک سنگر کی حیثیت سے فلم جان ِبہار سے لے کر آخری گیت،تک آدھی صدی سے زائد ایک مکمل فنی الہامات و ریاضت کا سفر ہے. یہ فن کی شعوری رفعتوں کا سفر ہے. بے بی نور جہاں سے لے کر آخری سانس تک یہ سفر انکی فن سے دلی وابستگی، سُر اور لےَ سے وارفتگی کا سفر ہے. ملکہ ترنم نور جہاں سُر کی ملکہ لےَ کاری کی دیوی تھی. ملکہ کا صوتی انگ و آہنگ روح کو مدہوش کردینے والا،اہلِ دل عاشقوں کو بے ہوش کردینے والا تھا۔ ان کی آواز درد کو مجسم کر دینے والی آواز، ساز و سوز سے مزین، سوز و گداز کا حسین مرقع تھی۔

                اللہ رب العزت نے ملکہ کو حسن، شہرت، پیسہ، فن بے بہا عطا کیا تھا۔ اس کے ُسر الہا می سُر ہوتے تھے. ملکہ ترنم نور جہاں نے کلاسیکل گائیکی سے آغاز کیا او رپھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمانِ فن کے اُفق پر نیم کلاسیکل، طربیہ، المیہ، شوخی و چینچل پن، حریت پسندی کے ایسے رنگ اور سُر کے ایسے انگ جھول دکھائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ ابتدا میں اداکاری کی تو اپنی محبوبانہ اداؤں سے شائقینِ حسن کے کلیجے چیر کر رکھ دیئے. وہ دوگانہ گاتیں تو اپنے مدِمقابل کے مردانہ سُر وں کے ساتھ اپنے سُر کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے رنگ کو ہمیشہ نمایاں رکھتیں۔ غزل گائی تو کمال کر دیا او رادب کے ہر فرد کو متاثر کیا. ملکہ ترنم گیت ریکارڈ کراتے ہوئے فلم کی ہیروئن کے کردار و مزاج اور عمر کے حساب سے خود کو اسی صوتی آہنگ میں ڈھال لیتیں۔ یہ صرف برصغیر میں ملکہ ترنم نور جہاں کاکمال ِبے مثال تھا.

                ملکہ ترنم نور جہاں نے ہمسایہ ملک کی جارحیت کے موقع پر خود ملی و جنگی ترانوں کی ایسی دھنیں تیار کیں کہ جنہیں سن کر فوجی جوانوں کا جوش و ولولہ بے مثال و دیدنی ہوتا. ان میں جذبہ ء حریت کمال عروج پہ پہنچ جاتا. اُنکی سُر پر ہتھکڑی کی طرح مضبوط گرفت ہوتی اور لےَ کاری سے تو اس کے چہرے کے تاثراتی انداز تو غضب ڈھا دیتے تھے، لب و رخسار اور نین سبھی سُر گُر کے تابع ہوتے. ملکہ ترنم نور جہاں ٹھاٹھ اور راگ سے باہر نہ نکلتیں. راگوں کی اروہی امروہی میں جس سُر سے گزرتیں اُسی سُر کا بھر پور تاثر دیتیں. کھرج سے نکھاد تک ایسے انداز ِزیر و بم اختیار کرتیں جس سے بادِصبا کے خرام کا گمان ہوتا تھا.

                ملکہ ترنم نور جہاں کی گائیکی گُر سُر میں مختص لمحات کے جھول کی گائیکی ہوتی تھی. ان کی گائیکی سُر وں کے خوبصورت بہلاوے، جھول، چھُڑ اؤ، لگاؤ، بجھاؤ اور گائیکی میں اکثر جگہوں پر انتہائی خالی بھری کے انداز و آہنگ کا لازوال مرقع تھی. لےَ کاری اتنی پختہ ترین کہ اپنی مرضی سے جس گُر پر دائرے سے باہر نکلتیں اور اپنی مرضی سے ہی دائرے میں داخل ہو جاتیں او ریہ جھول گائیکی کاانداز صرف ملکہ ترنم کی پہچان بنا۔ ملکہ ترنم آفٹر بِیٹ، آن بیٹ گیت و غزل کو نہایت خوبصورتی سے نبھانے کا ملکہ رکھتی تھیں۔ اپنی مجموعی گائیگی میں ادائیگیِ تلفظ پر تو ملکہ ترنم نے کمال کر دیا. لفظوں کی ادائیگی تو کوئی ملکہ سے سیکھتا . لفظوں کوایسی ملائمت اورشفاف تلفظ سے گاتیں کہ خود لفظ اپنے خیال سمیت جھوم اٹھتے تھے شاعری میں موجود شاعرانہ کیفیات کو ایسے صوتی انداز میں مجسم کرتیں جس کی گائیکی میں مثال ملنا مشکل ہے.

                ملکہ ترنم صنف ِنازک کے جذبات واحساسات کو سُر کا پیراہن ایسے انداز میں پہناتیں کہ اہلِ محبت کے دلوں میں پنہاں احساسات ان کے سامنے آ موجود ہوتے۔ عورت کا دکھ اور مرد کی بے رخی و بے وفائی کے احساسات کو مجسم شکل دینا تو کوئی ملکہ ترنم کی گائیگی سے سیکھے۔ ان کی گائیگی میں سُر،گُر دھوپ چھاؤں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے تھے. گائیگی میں سُر کا رچاؤ،گلے کا لوچ، مُر کیاں اُن کے سینے اور دل سے اُٹھتے سوز و گداز کے بہلاوے بے مثال تھے، غنا و ترنم کے ساتھ نیلے آکاش پر سُر کے بُر اق پر سواری کرنے کا فن تو انہیں قدرت نے ودیعت کیا تھا۔

                ملکہ ترنم وہ لیجنڈ ہیں جس کی تان سماعتوں میں رس گھولتی تھی۔ جس کے سُر پیار کی خوشبوئیں بکھیرتے تھے. روح کارُ  واں، رُواں نکھار دیتے تھے. اس کی آواز کا لمس آکاش کے پردوں سے محسوس ہوتا تھا. اس کی تان سے گلستانِ دل میں پھول مہک اٹھتے تھے. قوس و قزح کے سارے رنگ اس کے سُر سے سُر میل کرتے دکھائی دیتے تھے. نور جہاں کے گلے کے صوتی نور نے پتھر دلوں کو موم کر کے محبت کے خوابیدہ جذبوں سے آشنا کیا. اس کے ایک،ایک سُر سے خاموش اور منجمد دل مچلنے لگتے تھے او ر اہل محبت کے نین چھلکتے پیالوں کا روپ دھار لیتے اور اہل دل رقصِ بسمل کی کیفیت میں آ جاتے۔

                ملکہ ترنم نور جہاں پاکستان کی ثقافتی سفیر تھیں وہ ہر وقت محبت، مروت کے احساسات کا سراپا مجسمہ تھیں۔ حسن زدہ اور حسن گزیدہ کوئی دل ایسا نہیں جو نور جہاں کی آواز کا ہم نوا ا ور دمساز نہ ہو. وہ پیار محبت، اظہار عشق کی جرات کا کمال نمونہ تھیں. جب کبھی وہ اداس راگوں میں حالت ہجر کی حالت میں ہوتیں تو عاشقوں اور صاحبان ِ سُر کو رُلا، رُلا دیتیں۔ ان کی آواز میں چھ دہائیوں سے زائد عرصہ اہل دل اور شائقین موسیقی کی روحوں کو سرشار، مسحور اور مخمور کیے رکھا۔

                ملکہ ترنم کے لبوں پر جب الفاظ نغموں کی صورت میں آتے تو لفظوں کو معنویت ملتی، لفظی و ادبی تراکیب کے احساسات کو وہ مجسم کر کے سننے والے کے سامنے لاکھڑا کرتیں۔ اس کے سُر گُر سے گمنام موسیقار اور شاعر امر ہو جاتے. ملکہ نے ہجر و فراق، وچھوڑے کو ایسے گایا ہے کہ عورت کا انگ انگ ہُوک اٹھا اور اپنی گائیکی کو دنیا کے سامنے درد و فراق کا منتر و جادو بنا کے رکھ دیا. گیتوں میں حسن تغز ل کا رنگ دینے والوں کے شاعروں کے کلام کو یوں سُر میں ڈوب کر گایاکہ نغموں میں پائے جانے والی احساسات ہرکسی کو اپنے احساسات محسوس ہوتے ہیں کیونکہ غزل میں دلداری کی فسوں کاری، وصل کی کسک و خلش سے وہی حظ اٹھاسکتا ہے جو محبت میں گرفتارہو. ملکہ ترنم گائیکی کے دوران حسن و عشق کی قلبی وارداتوں کو اپنے اوپر طاری کر لیتی تھیں وہ محبت پیار کے جذبات کو یوں سُریلے پن سے ادا کرتیں کہ اہل دل کے دلوں اور نینوں کے خشک سوتے پھوٹ پڑتے. وہ گھڑی پل میں درد کو واہ اور واہ کو آہ کے سُروں میں تبدیل کرنے کا فن خوب جانتی تھیں. لطیف ترین سُر، گُر اور لے َ کاری کی گود سے جنم لینے والی نئی اختراعی جھول گائیکی کے انداز کو ملکہ ترنم نے ہمیشہ کیلئے امر کر دیا اور یہ انداز گائیکی کا حُسنِ اصول ٹھہرا اور آج کے فنکار ملکہ کی نقالی اور اس کی گائیکی کی جگالی کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنے کی ناکام کوششیں کرتے نظر آتے ہیں.

                ملکہ ترنم نور جہاں کی صوتی انفرادیت پوری دنیاپر عیاں تھی۔ وہ مشکل ترین د ھنیں اور مشکل ترین مینڈھ کو بڑے سہل انداز میں گا لیتی تھیں۔ انتہائی کمال او رپڑھے لکھے موسیقار خواجہ خورشید انور کی دھنوں اور ملکہ ترنم کی گائیکی کے حسین امتزاج نے پاکستان بھر کے سینماؤں کو کئی عرصے تک آباد کیے رکھا. ملکہ ترنم نے قتیل شفائی، تنویر نقوی، فیاض ہاشمی، سیف الدین سیف، خواجہ پرویز، احمد راہی، وارث لدھیانوی، حزیں قادری، تسلیم فاضلی، مسرور انور، فیض احمد فیض، حبیب جالب او رمرزا غالب کے قلمی و قلبی احساسات کو دنیا کے سامنے مجسم کر کے پیش کیا. ملکہ ترنم نے فیض احمد فیض کی "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ "جیسی نظم گا کر فلم انڈسٹری میں ایک نیا کامیاب تجربہ کر کے دکھا دیا او ربرصغیر میں اپنی گائیکی کے رچاؤ، لبھاؤ اور چس رس سے اہل فن اور شائقین موسیقی کی آنکھوں کو ہمیشہ کیلئے وا کر کے رکھ دیا۔

                ملکہ ترنم نور جہاں کی گائیکی کا بغور سائنسی مطالعہ کیاجائے تو اس کی خوبصورت جھول بھری گائیکی میں بے ساختہ بول کی ادائیگی کے ساتھ بیک و قت شاعر، موسیقار اور خود عورت کی طرف سے چاہت و بے قراری کے کرب او رخواہش ِقُرب  کو سائنسی انداز میں خوشبو کی طرح لطیف انداز میں اجاگر کیا بالکل خوشبو کی طرح جسے نہ چھُو ا جاسکتاہے نہ قابو کیا جاسکتا ہے بلکہ صرف اور صرف محسوس کیا جاسکتاہے. میڈم کے ہزاروں گیتوں میں اس کے ہجر و وصال کا پیمانہ چھلکتا دکھائی دیتا ہے. اس کے فن میں نسوانی احساسات کی تڑپ، بین اور کُر لاٹ ملتاہے. یہاں میں میڈم کی گائیکی سے اس کے لفظوں سے کھیلنے والی   مختلف کیفیات کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں. ان احساسات کا بھی وہ لوگ اعتراف کر سکتے ہیں جو نہ صرف سُر شناس ہیں بلکہ سُر کی سواری بھی کرتے ہیں۔ مثلا راگ بھیروی میں میڈم کا گیت "نہ جانے کیسا سفر ہے میرا، جہاں ہے منزل وہیں لٹیرا " میں میڈم نے لفظ"ہائے " کو ایسی کیفیت سے دوچار کیا ہے کہ ہائے دل سے اٹھتی ہوک بن کر عورت کی بے کسی کا نوحہ بن جاتی ہے. اسی طرح " کس نے بجائی ہے یہ بانسریا رے میرا دھڑکن لاگا جی " میں لفظ "ہو" کے احساس کو اہلِ دل کی دھڑکنوں پر محسوس کرایاہے۔ا ن کے سدابہار گیت"لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے "اس گیت میں لوٹ آؤ کی کیفات کو کمال احساس عطا کر کے ہر عورت او رمرد کے دل کی آواز بنا دیا ہے۔گیت  " وہ میرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں "میں پہلے لفظ  " وہ "  کی ایسی تشریح کی ہے کہ ہر عاشق کو اپنا وہ یاد آ جاتا ہے. یہاں، وہ،کا الاپ تیر بہ ہد ف بن کے دل پہ لگتا ہے. "مجھ کو غمِ حالات کی تصویر سمجھنا، اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا "  اس گیت میں  ملکہ ترنم نے کومل سُر وں کے بہلاوے سے بے بسی کی کیفیات کی انتہا کر دی ہے. اردو کے علاوہ میڈم نور جہان نے پنجابی زبان کو جو گائیکی کا لطیف اسلوب عطا کیا وہ صرف انہیں کا کمال ہے۔ اُس عہد میں یا عہدِ حاضر کی کوئی فنکارہ میڈم نور جہاں کے پنجابی اسلوب کی دُھول تک نہیں پہنچ سکتی"کہندے نیں نیناں، جدوں ہولی جئیں لیناں ایں میرا ناں، ناں دل دیندی اس بیدردی نوں "ایسے گیتوں میں ملکہء ترنم نے دل کی گہرائیوں کے احساسات اجاگر کیے ہیں. میڈم نے سرائیکی گیت " رُٹھے یار ڈاڈھے اوکھے منیندے، کینوں حال سناواں دل دا، کوئی محرم راز نہ ملدا " جیسے گیتوں میں ملکہ نے زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود بھی سرائیکی زبان کی چس رس اور چاشنی کو اپنے سُر سے دو آتشہ کر دیا. میڈم کی گائیکی میں شوخی، المیہ و طربیہ یکساں رنگ ملتے ہیں. ان کی گائیکی کے کسی پہلو کو کسی دوسرے پہلو کے مقابلے میں نہیں رکھا جاسکتا،گائیکی کا ہر انگ لاجواب ہے۔ ہجر و فراق،محبوب کے شوق ِ وصل اور وصال کی گائیکی میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں۔وہ سُر کی دیوی اور فن کی ملکہ ہے.اہل دل عاشق محبوب دونوں کے دلوں پر حکومت کرنے والی مہا رانی ہے. ملکہ ترنم نور جہاں کی گائیکی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ان میں سُر وں میں فنی شعوری خشوع و خضوع کا بھر پور  اظہار ملتا ہے. وہ المیہ گیت گاتیں تو سُر سسکیاں لینے لگ جاتے۔ اُن کے ہونٹوں پر سُر جوانی کی انگڑائیاں لیتے تھے۔سُر اُن پرالہامی کشف کی طرح نازل ہوتا تھا۔ راگوں کو نور جہاں کے ہونٹوں سے پہچان ملتی تھی. وہ طربیہ نغمے الاپ کرتیں تو سُر کے ساتھ گُر بھی دھمالیں ڈالتے تھے. دُنیا نے میڈم کے طربیہ گیتوں کو اپنی خوشی کیلئے المیہ گیتو ں کو اپنے دل کے کتھارسس اور محبت کے مارے بیمار دلوں کے دکھوں کے علاج کا دمساز و ہمراز بنایا ہے.

ُ         میری غیر حتمی تحقیقات کے مطابق نور جہان نے ۰۴۱۱ فلموں میں ۰۰۴۲ گیت گائے۔ ان میں اردو کی ۶۰۳ فلموں میں ۸۴۶ گیت، پنجابی کی ۱۵۷ فلموں میں ۹۳۷۱ گیت گائے۔ سُر کی ملکہ،گُر کی دیوی،غنا و ترنم کا بے مثال مجسمہء محبت ملکہ ء ترنم نور جہاں ۳۲ دسمبر کو سر زمینِ کراچی میں ہمیشہ کی نیند سو گئیں۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار