ایشیا اردو

آم کا بٹور ایک انتہائی خطرناک بیماری ہے جس سے پیداوار کا تقریباً 80فیصد حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔آم کی تما م اقسام کم و بیش اس بیماری سے متاثر ہوتی ہیں۔ اس بیماری کا پھولوں پر حملہ پھول نکلتے وقت نہیں ہوتا بلکہ پودے پر ہونے والی نئی نباتاتی بڑھوتری پر ہوتاہے۔ ہوا میں 70تا80فیصد نمی کا تناسب اس بیماری کے حملہ میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔آم کے بٹور کا مرض دو طرح کا ہوتا ہے۔ پہلی قسم نباتاتی بٹور(Vegetative malformation) کہلاتا ہے۔ یہ پتوں والے شگوفوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے شگوفے کی بڑھوتری رُک جاتی ہے۔ شاخ صحیح حالت میں بڑھنے کی بجائے گچھے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اس بیماری کا حملہ نرسری یا چھوٹی عمر کے پودوں پربھی مشاہدہ میں آیا ہے جس کی وجہ سے پتے سائز میں چھوٹے اور نوکیلے ہوجاتے ہیں اور ٹہنیوں کی نشونما رک جاتی ہے۔ اگر نرسری کے3 سے 4 ماہ کے پودوں پر اس کا حملہ ہو جائے تو ان کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ متاثرہ شاخیں اندر سے سوکھ جاتی ہیں۔دوسری قسم پھولوں کا بٹور (Floral malformation) کہلاتی ہے جس سے پھولدار پودے اس کی زد میں آجاتے ہیں۔پھل دینے والے درخت عموماً اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔پھولوں کا بٹور ہی نقصان کا باعث بنتا ہے اور پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ بٹور والی شاخ عام شاخ کی نسبت  3 گنا  زیادہ پھول نکالتی ہے۔ اور ان پھولوں کا سائز بھی عام پھولوں کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ متاثرہ شاخوں پر نر پھولوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے پھول جن میں نر اور مادہ موجود ہوں زیادہ تر بانجھ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نر اور مادہ کا ملاپ ہو جائے تو پھل فوراً گر جاتا ہے۔ بٹور شدہ گچھا سبز حالت میں پھول آوری کے موسم کے آخر تک ٹہنی کے ساتھ لٹکا رہتا ہے۔ بٹور کے خوشے مختلف اشکال کے ہو سکتے ہیں۔ ایک شکل جس میں عموماً گچھےcompact inflorscence   کے نظر آتے ہیں جس میں صرف پھول ہی ہوتے ہیں۔ دوسری شکل میں پھولوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے پتے بھی موجود ہوتے ہیں۔ تیسری شکل میں گچھا اتنا گھنا نہیں ہوتا بلکہ کافی ڈھیلا (loose)  اور کُھلا (open) ہوتا ہے۔ جس میں پھولوں کی لڑیاں بڑی اور لمبی ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بٹور اگر پودے پر موجود رہے تو یہ نہ صرف پودے کو شدید کمزور کر دیتا ہے بلکہ پودے پر موجود پھل کو گرانے کا موجب بھی بنتا ہے جس سے پیداوار میں بہت زیادہ کمی واقع ہوتی ہے۔درخت پر اس کی موجودگی مختلف کیڑوں اور بیماریوں کی آماجگاہ کا باعث بنتی ہے۔بیماریوں میں سفوفی پھپھوندی اور کیڑوں میں پھل کا گڑواں قابل ذکر ہیں۔جیساکہ اس بیماری کی پھپھوند پودے کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ اندر ہی اندر بڑھتی رہتی ہے اور رواں سال کی تازہ شاخوں سے اوپر سے نیچے کی طرف بڑھوتری کرتی ہے۔  اس کا آسان ترین اور موثر علاج یہ ہے کہ متاثرہ  شاخوں کو تقریباً ایک تا ڈیڑھ فٹ تک پیچھے سے کاٹ دینا چاہیے اور اس کے بعد کسی بھی سرائیت پذیر پھپھوند کش زہر کا سپرے کرنا چاہیے۔ کٹے ہوئے بٹور کو باغ سے باہر لے جا کر تلف کردیں تاکہ یہ بیماری مزید نہ پھیل سکے۔آم کے پودوں کو نائٹروجن کی مقدار اس کی ضرورت کے مطابق دینی چاہیے۔بہتر ہو گا کہ کھادوں کا استعمال زمین اور پتوں کے تجزیہ کے مطابق کرنا چاہیے۔اکثر کاشتکار پھولوں کے موسم میں آبپاشی اس خوف سے نہیں کرتے کہ پھول بٹور کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے اس بیماری کے پھیلنے کا آبپاشی یا نمی کے ساتھ تعلق ضرور ہے مگرموسم بہار کے دوران اس میں پھولوں کو بٹور کی شکل میں تبدیل کردینے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی کیونکہ اس بیماری کے جراثیم موسم بہار میں ہوا میں موجود ہی نہیں ہوتے اور اس بیماری کو حملہ سے لیکر ظاہر ہونے تک پودے کے ٹشو میں رہنے کے لیے کم ازکم چالیس دن اور زیادہ سے زیادہ 200 دن درکار ہوتے ہیں۔آم کی نرسری کو کبھی بھی آم کے باغ میں نہیں لگانا چاہیے۔نرسری میں جب پیوند کاری کرنی ہو تو ہمیشہ صحت مند قلم اور بڈ کا انتخاب کرنا چاہیے۔نباتاتی بڑھوتری مکمل ہونے کے بعد خوابیدگی سے پہلے کسی بھی سرائیت پذیر پھپھوندکش زہر کا سپرے کریں۔

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار