تحریر نعمان حفیظ
ایک پڑھا لکھا معاشرہ کسی ملک کی قومی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضروری ہے کہ پرکھا جائے ہمارے تعلیمی نظام سے قوم نے کیا کھویا، کیا پایا اور چیلنجز سے بھرے موجودہ دور میں آیا ہمارا تعلیمی ڈھانچہ ہمارے مسائل کا حل فراہم کرتا بھی ہے یا نہیں؟
ہم اپنے تعلیمی اداروں میں بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، کیا پڑھا رہے ہیں ؟ ان کی تربیت کیسی ہو رہی ہے ؟ ہم انھیں کامیاب بنانا چاہ رہے ہیں یا ان کے اندر لالچ اور حسد جگا رہے ہیں ملک میں ناقص تعلیمی نظام کی بدولت ہجوم بن رھا ھے جو بالکل بے شعور اور بے ادب ہے کیونکہ شعور تربیت سے آتا ھے۔اگر تعلیم نے ہی سب سکھانا ہوتا تو آج مختلف گروہوں کے پیچھے لگ کر اپنی زندگیاں برباد کرنے والے نوجوان اپنے ہنر سے خود کو ایک قابل انسان بنا رہے ہوتے ۔۔
اگر ہمارا تعلیمی نظام ہمیں صرف سکیل ایک سے بیس تک کے سرکاری نوکر دے رہا ہے تو موجودہ وسائل کے مطابق بزنس یا پروفیشنل تعلیم کو کیوں نہیں نافذ کیا جاتا۔ نیوٹن کی ماس انرجی مساوات ( E=mc^2) پڑھانے کا کیا مقصد، جب ہمارے پاس تجربات کے لیے لیبارٹریز ہی دستیاب نہیں۔ جہاں تک استاد کی بات ہے تو وہ صرف ایک سرکاری نوکر بن کر رہ گیا ہے۔ استاد کو حق نہیں کہ وہ بچوں کو سیاست سکھائے، ہمارا قانون استاد کو پبلک پالیسیوں پر تنقید کی اجازت بھی نہیں دیتا بلکہ اسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ وہ استاد جس کے ہاتھ میں ہمارے بچوں کا اور ہماری ریاست کا مستقبل ہوتا ہے اس کو آزادی رائے کا حق نہیں دیا جاتا، اسے تعلیمی پالیسیوں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی بلکہ ایک ایسا وزیر تعلیمی پالیسی بناتا ہے جس کو تعلیم و تدریس کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں ہوتا، استاد کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیوں پر عمل کرو۔ اگر استاد کو غلام بنا کر ہی رکھنا ہے تو ایک غلام ایک آزاد قوم کو کیسے تیار کرے گا؟
بد قسمتی سے پاکستان تعلیم کے شعبے میں آج دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے نظر آتا ہے اس وقت بھی وطن عزیز میں انگریزوں کا قائم کردہ وہی تعلیمی ڈھانچہ نافذ ہے جس کے ذریعے سے ہم صرف کلرک ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی ڈھانچے کی اسی خرابی کے نتیجے میں آج ہم سائنس اور تحقیق کے شعبے میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔۔پاکستان میں آج بھی طبقاتی نظام تعلیم موجود ہے، جس میں ایک طرف او لیول اور کیمبرج سسٹم کے اسکولز ہیں، جن سے صرف دولت مند طبقے کے بچے ہی فیضیاب ہوسکتے ہیں، تو دوسری جانب سرکاری اسکول ہیں، جو غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی پہنچ میں تو ہیں لیکن ان کی حالت زار سے بھی تمام لوگ بخوبی واقف ہوں گے۔ملک بھر میں موجود اکثر سرکاری اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں اور متعدد اسکولوں میں طلبہ کے بیٹھنے کیلئے کرسیاں تک موجود نہیں ہوتیں، جبکہ بہت سے سر کاری اسکول ایسے بھی ہیں جو آج تک اساتذہ سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سہولیات کے فقدان اور ناقص معیار تعلیم کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ذہین طلباء بھی تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ امیر اور غریب کے تعلیمی معیار میں اسی فرق کی وجہ سے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا طالبعلم آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پورے ملک پر او لیول اور کیمبرج طبقہ راج کرتا رہتا ہے، جسے نہ تو غریب عوام کے مسائل کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔ہمارے معاشرے میں تعلیم کو ایک الگ ہی انداز سے دیکھا جاتا ہے اور حصول علم کا طریقہ بھی باقی دنیا سے الگ ہے ۔آج بھی ہمارے معاشرے میں تعلیم کو حصول روزگار کا ایک ذریعہ تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے نہ صرف ہمارا تعلیمی نظام ناقص  ہے بلکہ عرصہ دراز سے ہم نے اس میدان میں کوئی خاطر خواں کامیابیاں بھی نہیں سمیٹیں۔جس معاشرے میں تعلیم کو صرف نوکری کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس معاشرے میں صرف نوکر ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔اس قوم سے پھر رومی ،رازی کے پیدا ہونے کی امیدیں نہیں لگائی جا سکتی ہیں ۔علم تو ہمارے بیچ رہ گیا لیکن وہ معیار نہیں وہ جستجو نہیں جس کے لئے مشرق کے مسلمان مغرب کی اور مغرب کے مسلمان مشرق کی خاک چھانتے تھے۔۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے طرف سائنسدان نہیں بلکہ خادم پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے پاکستان دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں پاکستان ہر ٹیکنالوجی دوسرے ممالک سے منگواتے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ ہر نوجوان صرف نوکری حاصل کرنے کیلے تعلیم حاصل کرتے ہے ہم پاکستان کو ایک نوکر کے سواء کچھ نہیں دے سکتے اور یہ پاکستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔!!!!فرمان ہے  تعلیم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔اور یہ کیسے حکمران ہے جنھوں نے غریبوں کو چین بھیجنا تو دور اسی علاقے میں اسی غریبوں کو ایک سکول بنا کر نہیں دے سکتے۔جبکہ ان کے دعوے ہوتے ہیں سکول بنیں گے کتابیں فری ملیں گی فیسیں معاف ہوں گی یونیفام مفت ملے گا۔
دُنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے، اگر ہمارے دماغوں کو زنگ لگ گیا ہے تو کیا ہم بیرونی دُنیا یا پھر اے لیول طرز تعلیم کو گوگل کر کے ان سے سیکھ بھی نہیں سکتے؟ سب سے اہم بات، کیا ہم ان مسائل کو مسائل سمجھتے بھی ہیں یا ہم سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو چکے ہیں اور جان بوجھ کر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں؟
سب سے پہلے تو ماہرین تعلیم سے میرا سوال ہے کہ آیا ہمارا نظام تعلیم درست ہے؟ اگر نہیں تو اس میں درستگی کے لیے کسی نے کوئی کوشش کی؟ اس کے بعد لازمی طور پر وزیر تعلیم اور حکومتی مشینری سے سوال بنتا ہے کہ اس نظام تعلیم میں تبد یلی آپ لوگ ہی لا سکتے ہیں، آپ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے، آپ نے سوائے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے اور کیا ہی کیا ہے؟

You Might Also Like

Leave A Comment

جڑے رہیے

نیوز لیٹر

کیلنڈر

اشتہار